دنیا مومن کا قید خانہ،کافر کی جنت
دنیاکی زندگی جیسے بھی ہو گزرنے والی ہے مومن پر بھی گزر رہی ہے کافر پر بھی، فاسق پر بھی گزر رہی ہے، منافق پر بھی ،غریب پر بھی گزر رہی ہے امیر پر بھی ۔حضرت ابو ہریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے‘‘(جامع ترمذی:2324)۔
ایک عجیب واقعہ
ایک بادشاہ کے گھر کے سامنے ایک نانبائی کی دکان تھی کہ رات کو وہاں ایک فقیر رات بسر کررہا تھا۔ جب بادشاہ کو علم ہوا تو اس کو دربار میں حاضر کرانے کا حکم دیا۔ جب وہ حا ضر ہوا تو بادشاہ نے پوچھا کہ رات کیسے گزری ؟تو اس فقیر نے جواب دیا کہ میرے رات کے دو حصے تھے۔ ایک حصہ میرا اور آپ کا برابر گزرا اور ایک حصہ میراتیرے حصے سے بہتر گزرا ۔بادشاہ حیران ہوکر کہنے لگا کیسے ؟تو اس نے کہا کہ جب آدمی سونے کے ارادے سے بستر پر جاتا ہے تو نیند آنے سے پہلے سوچتا رہتا ہے، تو میں اللہ کی یاد میں تھا اور تو دنیا کے بارے میں سوچ رہا تھا،تو میر ایہ حصہ تیرے رات کے حصے سے بہتر گزرا۔دوسرے جب آدمی سوجائے تو پھر اس کو معلوم نہیں ہوتا کہ میں کہاں پر سویا ہو ں تو میرا اور تیرا یہ حصہ برابر تھا ۔
الغرض دنیا کی زندگی گزرنے والی ہے، جیسے بھی ہو کٹتی ہی رہے گی ۔ایام مصیبت کے تو کاٹے نہیں کٹتے مگر عیش و عشرت کی گھڑیاں پر لگا گزر جاتی ہیں۔ بعض علماء نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ جب مومن جنت میں داخل ہوگا اور وہاں کی نعمتیں دیکھے گا تو اسے دنیا کی زندگی قید خانہ معلوم ہوگی۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اس کا یہ مطلب بیان فرمایا کہ کافر اپنا مقصدِ زندگی دنیا کے حصول کو بناتا ہے اور دنیا کی لذتوں اور شہوتوں کو جمع کرنے میں اتنا منہمک ہوجاتا ہے کہ اسی دنیا کو نعمت کدہ سمجھتا ہے ۔
قید خانے کی خصوصیا ت
مذکورہ حدیث ’’الدنیا سجن المؤمن‘‘ میں دنیا کو مومن کے لیے قید خانہ قرار دیا گیا ہے قید خانے کی دو خصوصیات ہو تی ہیں ۔
(1) قید خانے میں آدمی من مانی زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ جوقید خانے کے امراء کا حکم ہو گا اس پر سر تسلیم خم ہوگا ۔
(2) اگر قید خانے میں آدمی کو عمر بھر قید کا اعلان سنایا جائے تب بھی یہ قید ی قید خانے کی در و دیوار سے دل لگی نہیں کرتا ۔
جنت کی خصوصیات
اس کے بر خلاف حدیث کے دوسرے ٹکڑے ’’وجنۃ الکافر ‘‘میں دنیا کو کافر کے لیے جنت قرار دیا ہے ،جنت کی بھی دو خصوصیات ہوتی ہیں ۔
(1)جنت میں دخول کے بعد آدمی من مانی زندگی بسر کرتا ہے جو دل میں آتا ہے وہی کرتا ہے ۔
(2) جنت میں جنتی لوگ جنت کی دیواروں سے محبت کرتے ہیں اور اس سے کبھی نہیں نکلتے ۔
یہ حدیث اب ہمارے لیے بمنزلہ آئینے کی ہے کہ ہم اس میں اپنی زندگی کو دیکھ لیں کہ ہم من مانی زندگی بسر کرتے ہیں یا رب چاہی زندگی ۔ کیونکہ مومن کے لیے یہ دنیا قید خانہ کے درجے میں ہے تو اس دنیا میں مومن رب چاہے زندگی بسر کرے گا اور حضور ﷺ کے فرامین کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے گا اور مومن کو یہ بھی چاہئے کہ وہ دنیا سے محبت اور دل لگی نہ کرے کیونکہ حدیث میں دنیا مومن کے لیے بمنزلہ قید خانے کے ہے اور قید قید خانے کی دیواروں سے کبھی محبت نہیں کرتا۔ کفار کے لیے دنیا بمنزلہ جنت کے ہے تو وہ(کافر) بھی دنیا میں من مانی زندگی کو بسر کرتے ہیں کیونکہ آخرت میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہے ،اور دوسری بات یہ ہے کہ کفار دنیا کے ساتھ محبت اور دل لگی کرتے ہیں گویا کہ کفار اس دنیا میں ہمیشہ رہیں گے کبھی اس سے کوچ نہیں کریں گے۔
اس حدیث سے ہمارے لئے یہی سبق ہے کہ دنیا تو عارضی ہے اس میں دل نہ لگائیں اور زیادہ غور اس بات پر کریں کہ دائمی زندگی کے لئے اہتمام کریں۔وہ زندگی جس میں داخل ہوتے ہی ہم سے اس زندگی کی بابت پوچھا جائے گا۔ طالبات، مائیں اور بہنیں اپنی نمازوں کو مکمل بنائیں۔ پردہ اور حقوق العباد کا خیال رکھیں تو ان کے لئے اخروی زندگی میں یہاں کی زندگی قید ہی معلوم ہو گی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس حدیث کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے جیساکہ دوسرا ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ ’’کن فی الدنیا کأنک غریب او عابرسبیل ‘‘(دنیا میں ایسی زندگی بسر کرگویا کہ تو مسافر ہے یا راہ گزار ہے)(سنن ابن ماجہ : 4114، صحیح بخاری :6418) ۔یعنی جس طرح آدمی راستے کو کاٹ کر منزل مقصود تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تو اس طرح یہ دنیا بھی ایک راستہ ہے اور ہماری منزل مقصود آخرت ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین )