یادرفتگاں: 20ویں برسی احمد بشیر جرات و جسارت کا پیکر
احمد بشیرایک دانشور، ادیب، صحافی، ہدایتکار، سوشلسٹ، متحرک سماجی کارکن، اور ناول و افسانہ نگارتھے جنہوں نے ایک انقلاب آفریں زندگی گزاری۔ وہ 26دسمبر 1923ء کو ایمن آباد، ضلع گوجرانوالہ میںپیدا ہوئے۔ گورنمنٹ اسلامیہ ہائیر سیکنڈری سکول احمد بشیر کی اوّلین درس گاہ تھی۔ان کے والد کا تعلق شعبہ تعلیم سے تھا۔
جب ان کا ٹرانسفر بہ طور ہیڈ ماسٹر سری نگر ہوا تووہ اپنی فیملی کے ساتھ کشمیر چلے گئے۔ احمد نے بی اے کا امتحان جمّوں یونی ورسٹی، سری نگر سے پاس کیا۔ کالج کی لائبریری سے احمد بشیر نے جو کتابیں پڑھیں، ان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی تحریریں بھی شامل تھیں اور یہی وہ دور تھا کہ جب ضدی طبع احمد بشیر نے اپنی زندگی کی راہیں متعین کرنا شروع کیں۔ اسی دور میں انہیں کسی وجہ سے کشمیر کو خیر باد کہنا پڑا اور وہ جہلم میں مقیم اپنے ماموں، شیخ اشفاق حسین کے پاس پہنچ گئے۔ پھر اپنے والد کے کہنے پر ملازمت کیلئے دہلی آئے، جہاں فوج کے پیرا ملٹری کے شعبے میں بطور افسرری کری ایشن تعینات ہوئے۔ یہ محکمہ گائوں کے جاگیرداروں، چوہدریوں اور پنڈتوں کی مدد سے کسان لڑکوں کو فوج میں بھرتی کرنے کا اہتمام کرتا۔ بعدازاںجب ان کا تبادلہ راولپنڈی کر دیا گیا تو وہاں 1944ء میں ان کی ملاقات ممتاز مفتی سے ہوئی دونوں میں ذہنی ہم آہنگی کچھ ایسی تھی کہ دوستی کا یہ تعلق تاحیات قائم رہا۔ پھر دونوں لاہور آگئے۔ ممتاز مفتی کا ریڈیو اسٹیشن آنا جانا لگا رہتا تھا اور اکثر احمد بشیر بھی ان کے ساتھ ہوتے۔ یہاں انہیں اُس دور کے نامور ادیبوں سے ملنے کا موقع ملا۔ اسی دوران ممتاز مفتی کو ایک فلمی کہانی کے سلسلے میں بمبئی جانا پڑا، تو احمد بشیر بھی ان کے ساتھ چلے گئے کہ شاید فلم میں کام مل جائے کہ انہیں اداکاری کا بھی شوق تھا۔
یہ1947ء کے اوائل کا زمانہ تھا اور تب ہندوستان کے بیشتر ادیب بمبئی میں کرشن چندر کے مکان میں قیام پذیر تھے۔ احمد بشیر کو یہاں ساحر لدھیانوی، منٹو، حمید اختر اور میراجی سمیت دوسرے ادیبوں سے ملنے کا موقع ملا اور یوں ان کے اندر چھپی تخلیقی صلاحیتوں کو ایک ساز گار فضا میسر آئی۔ اسی دوران ہندو، مسلم فسادات پھوٹ پڑے اور ستمبر 1947ء میں احمد بشیر اور ممتاز مفتی لاہور واپس آگئے۔
محمد ظہیر بدر کی کتاب ’’احمد بشیر، شخصیت اور فن‘‘ کے ابتدائیے میںنامور ادیب ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو لکھتے ہیں ’’احمد بشیر کا شمار پاکستانی ادب کی ہمہ جہت شخصیات میں ہوتا ہے۔ احمد بشیر نے جب خار زارِ صحافت میں قدم رکھا، تو ان کا پہلا پڑائو ’’امروز‘‘ تھا۔ یہاں ان کی ملاقات مولانا چراغ حسن حسرت سے ہوئی اور انہیں احمد بشیر کی بے باکی، صاف گوئی اور ہم دردی بہت پسند آئی۔احمد بشیر کے مارشل لا، نظامِ حکومت اور معاشرتی اونچ نیچ پر تیکھے اور تیز و تند حملے ہمیشہ ان کیلئے باعث آزار ثابت ہوئے، لیکن انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’ہمارے پاس کوئی گھر یا جائیداد نہیں ہے، مگر ہم خوش ہیں۔ روٹی فی الحال آرہی ہے اور اس سے زیادہ کی اب مجھے ضرورت بھی نہیں‘‘۔احمد بشیر کا انتقال 20 سال قبل 25دسمبر 2004ء کو ہوا۔
احمد بشیربجا طور پر ایک انقلابی شخصیت کے حامل تھے اور وطن عزیز میں ایسے تخلیق کار اور صحافیوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔وہ اپنے متعلق لکھتے ہیں ’’برسوں کے طویل کریئر میں مجھ پر کوئی الزام آیا تو نظام سے بغاوت کا آیا۔ میری کوئی جائیداد بھی نہیں۔ میں اپنی حلال کی کمائی میں مکان کا کرایہ ادا نہیں کر سکتا، اس لئے اپنے داماد کے گھر کے ایک کمرے میں رہتا ہوں۔ کوئی حسرت بھی نہیں، کوئی پشیمانی بھی نہیں، کسی خوف کا شکار بھی نہیں‘‘۔
احمد بشیر نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ روزنامہ ’’ امروز‘‘ میں بطور صحافی ملازم ہونے کیلئے مولانا چراغ حسن حسرت سے انٹرویو کیلئے گیا۔ یہ انٹرویو تقریباً چھ گھنٹوں پر محیط تھا اور اس میں انہوں نے ہر رنگ میں میری شخصیت کا مطالبہ کیا۔ اس زمانے میں صحافی بننا آسان نہ تھا۔ شاگردوں کے انتخاب میں ان کی طبیعت، تعلیم، تہذیبی پس منظر اور مطالعے، معلومات عامہ اور ذہنی رجحانات کو ملحوظ رکھا جاتا تھا۔
معروف ادیب اور ڈرامہ نگاریونس جاوید’’جو ملے تھے راستے میں ‘‘ میں ’’جوگی‘‘ کے نام سے اپنے خاکے میں لکھتے ہیں۔ ’’مفتی صاحب کے بقول احمد بشیر کی شخصیت خواب آلودہ ہے۔ درست! مگر ایسا خواب جس کی تعبیر بشارت بن کر اس کی شخصیت کا احاطہ کئے رہتی ہے۔اور وہ لمحہ لمحہ بدلتا رہتا ہے۔ کبھی کندن، کبھی تانبا، کبھی بھٹی سے نکلا ہوا سرخ انگارہ لوہا، وہ جو کچھ بھی ہے سامنے ہے، کھرا ہے۔اس کی ذات میں نہ تو مختلف منکے ہیں نہ وہ آستین میں رومال ڈال کر پانی نکالتا ہے۔ لہٰذا ہم اس کی شخصیت کو شالامار کے حجرے کی پراسراریت سے بریکٹ نہیں کر سکتے۔ پراسرار تو وہ ہے ہی نہیں۔ وہ تو بنوٹ کا کھلاڑی ہے۔ پورے دائو پیچ کے ساتھ۔ تبھی تو اس کی آواز میں بناوٹ کا ضعف نہیں، اعتماد کی کھنگ ہے، یہ کھنک اسے سچائی اور اس علم نے دے رکھی ہے۔ جس نے اسے اعتبار بخشا ہے۔ وہ کھوٹے کو جانتا ہے اور کھرے کو پہچانتا ہے۔ اس لئے کبھی اس کے ہاتھ میں جسارت کا ڈنڈا ہوتا ہے کبھی جرات کا پتھر، بھلے سے، سر پھٹے، شریانیں ٹوٹیں، جگر خون ہو، یا دوسرا لیر ولیر۔ اسے پروانام کی کسی چڑیا سے واسطہ نہیں۔ ہاں! البتہ خوابوں سے اس کی جھولی کبھی خالی نہیں ہوئی۔ مارشل لاء کے لگ بھگ گیارہ سال اس نے ٹی ہائوس کی میز پر ہمیں ایک سے ایک بڑھیا خواب ہی تو دکھایا اور گرمایا۔ وہ ہر شام، جلد صبح ہونے کی نوید سے سب کے دلوں کو مسرت و انبساط سے ہمکنار کرتا تھا۔ نئی سے نئی دلیل کے ساتھ کہ حوصلہ نہ ٹوٹے۔ ہر شام یہی لگتا تھا کہ دوسری صبح، جبر اس وطن ہی سے کیاپوری دنیا سے اٹھ جائے گا اور جنت کے جس خواب کو ہر سوچنے والا بُنتارہتا ہے، صبح ہونے سے پہلے ہی اسے دیکھ لے گا، مگر ایسا کبھی نہ ہوا۔ ہمارے شام کے خواب صبح تک بکھر جاتے تھے، دوسرے دن پھر سے نیا تجزیہ‘‘۔
پھر یونس جاوید لکھتے ہیں ’’احمد بشیر مکان اور گھروندے کے سلسلے میں انگریزی کے اس مقولے پر ہمیشہ سے عمل کر رہا ہے کہ مکان بنانے والا یعنی مالک بے وقوف اور اس میں رہنے والا(یعنی کرائے دار) عقل مند ہے۔ اپنی عقل مندی کو ثابت کرنے کیلئے عمر اس نے کرایہ دار کی حیثیت سے گزار دی ہے، مکان کا جھنجھٹ اس نے پالا ہی نہیں۔ وہ تو بھلا ہو ڈاکٹر صفدر محمود کا کہ انہوں نے ’’محبت‘‘ کی خاطر پلاٹ کے کاغذات اس کے گھر پر چھوڑ دیئے مگر احمد بشیر نے تب بھی مکان نہ بنایا۔ اس نے اسے بیچ کر بیٹے کی شادی کر دی۔
یونس جاویدلکھتے ہیں’’احمد بشیر کٹر پنجابی ہے، انگریزی میں سوچتا ہے، پنجابی بولتا اور اردو میں لکھتا ہے۔ جب کبھی میں پنجابی میں بات کرتے کرتے اردو بولنے لگتا ہوں تو وہ بار بار ایسا کرنے پر مجھے ڈانٹ دیتا ہے۔ وہ ماں بولی کا سنجیدگی سے احترام کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے لکھو بے شک جس زبان میں، بولو تو اپنی زبان، مگر اسے تینوں زبانوں پر کمانڈ حاصل ہے۔ اس نے تینوں زبانوں میں لکھا ہے اور خوب لکھا ہے۔ لکھنا اس کا رزق ہے۔ اس کا شوق بھی ہے اور یہی شوق اس کا جنون بھی ہے‘‘۔
’’احمد بشیرخستہ حال طبقے کی آواز تھے‘‘
(ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو)
محمد ظہیر بدر کی کتاب، ’’احمد بشیر، شخصیت اور فن‘‘ کے ابتدائیے میںنامور ادیب ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو نے لکھا ہے کہ ’’احمد بشیر کا شمار پاکستانی ادب کی ہمہ جہت شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے بہ حیثیت ِناول نگار، خاکہ نگار، کالم نگار، افسانہ نگار، مکتوب نگار، صحافی اور فلم ساز، پاکستانی ادب کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ نظریاتی طور پر وہ ترقی پسند ادب سے جڑے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ خستہ حال اور پسے ہوئے طبقے کے مسائل اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ وہ ایک ایسے ادیب اور دانش وَر تھے، جنہوں نے آمریت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے امید اور روشن امکانات کے چراغ روشن رکھے‘‘۔
ادبی تخلیقات
’’جو مِلے تھے راستے میں‘‘ (خاکے، مرتّب، یونس جاوید)
’’خونِ جگر ہونے تک‘‘ (مضامین کا مجموعہ)
’’ڈانسنگ وِدوُلوز‘‘(انگریزی کالمز کا مجموعہ)
’’خطوں میں خوش بو‘‘ (مکاتیب، مرتّب، نیلم احمد بشیر)
’’خون کی لکیر‘‘ (ناول) ، ’’دل بھٹکے گا‘‘ (ناول)
احمد بشیربہ حیثیت فلم میکر
احمد بشیر ’’امریکن ایڈ پروگرام‘‘ کے تحت امریکہ گئے، جہاں انہوں نے فلم میکنگ کی تربیت حاصل کی۔ وہ امریکہ میں اس شعبے میں تربیت حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی تھے۔ ایک سال بعد پاکستان واپسی پر جب انہوں نے اپنی تعلیم کو اپنی فلم ’’نیلا پربت‘‘ میں ڈھالا تو اس کی ناکامی کی صورت میں خاصے دِل برداشتہ ہوئے۔انہوں نے قائدِ اعظمؒ کے 100ویں یومِ پیدائش پر ایک دستاویزی فلم بنائی، جو ان کی فنکارانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ احمد بشیر کو فنِ موسیقی اور علم جفر سے بھی کافی لگائو تھا۔
احمد بشیربہ طور باپ
عرفان جاوید اپنی کتاب ’’دروازے‘‘ میں احمد بشیر کے خاکے میں لکھتے ہیں کہ ’’ذہین اور نکتہ رَس، احمد بشیر بعد میں شادی کرتا ہے اور چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کا باپ بنتا ہے۔ اپنی بیوی سے مثالی محبّت کرتا ہے اور بیٹیوں کو بیٹوں کی طرح پالتا ہے۔ ایک کو شہزادی کہتا ہے، تو دوسری کو رانی۔ بیٹیوں کو دیکھ کر آنکھ میں نرمی ہی نرمی اور پیار ہی پیار ہوتا ہے‘‘۔
نیلم بشیر کہتی ہیں کہ ’’ابّا جب کبھی خوش ہو کر گھر آتے، تو ان کے ہاتھ میں پَھل اور مٹھائیاں ہوتیں اور اس کے دو ہی سبب ہوتے، نوکری ختم ہونے کی خوشی یا نوکری ملنے کی خوشی‘‘ ۔