خلیفہ اوّل، حضرت ابوبکر صدیق ؓ
سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے انتہائی مشکل حالات میں نظامِ خلافت کو سنبھالا
خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں کہ جن کے بارے میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ! ’’مجھے نبوت عطا ہوئی تو سب نے جھٹلایا مگر ابو بکر صدیقؓ نے مانا اور دوسروں سے منوایا ،جب میرے پاس کچھ نہیں رہا تو ابو بکرؓ کا مال راہِ خدا میں کام آیا، جب ابو بکر صدیق ؓ نے مجھے تکلیف میں دیکھا تو سب لوگوں سے زیادہ میری غم خواری کی‘‘۔پیکرِ صدق و وفا سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حضور ﷺ نے کئی مرتبہ جنت کی بشارت و خوشخبری دی اور عشرہ مبشرہ صحابہ کرامؓ میں بھی آپؓ کا نام سرفہرست ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کئی آیات حضرت ابو بکر صدیقؓ کی شان میں نازل فرمائیں۔
تاریخ اسلام کے اوراق حضرت ابوبکر صدیقؓ کی روشن زندگی، فضائل و مناقب ،سیرت و کردار اور سنہرے کارناموں سے بھرے پڑے ہیں جس کی ضو فشانی سے قیامت تک آنے والے مسلمان و حکمران ہدایت و راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔ سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ فیصلے کرنے اور فصاحت و بلاغت میں کمال رکھتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی قتلوں اور دیگر معاملات کے فیصلے آپؓ سے کروائے جاتے اور خون بہا یعنی دیت کی رقم بھی آپؓ کے پاس جمع کروائی جاتی تھی۔ علم انساب میں بے مثال اور خوابوں کی تعبیر بتانے میں ماہر تھے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے۔
حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ کو متفقہ طور پر خلیفۃ الرسول اور جانشین بنایا گیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد اپنے پہلے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ ’’اے لوگو! میں تمہارا حاکم بنایا گیا ہوں لیکن تم سے بہتر نہیں ہوں، اگر میں نیک کام کروں تو اس میں میری مدد کرو اور اگر میں برا کروں تو مجھے ٹو کو۔ صدق امانت ہے اور کذب خیانت، تمہارا کمزور شخص میرے نزدیک قوی ہے جب تک میں اسے اپنا حق نہ دلا دوں اور تمہارا قوی آدمی میرے نزدیک کمزور ہے جب اس کے ذمہ جو حق ہے وہ اس سے نہ لے لوں۔ جو قوم اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد ترک کر دیتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ ذلت و خواری مسلط کر دیتا ہے اور اگر کسی قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر بلائیں اور عذاب عام کر دیتا ہے۔تم میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو! لیکن اگر مجھے سے کوئی ایسا کام سرزد ہو جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا پہلو نکلتا ہو تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں ہے‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’خدا کی قسم! میں امارت اور خلافت کا ایک لمحہ کیلئے بھی خواہش مند نہ تھا اور نہ مجھے خلافت سے کوئی دلچسپی تھی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے اس کی تمنا نہیں کی، نہ زبان سے کھل کر درخواست کی اور نہ دل میں ہی اس کی خواہش پیدا ہوئی، ہاں میں فتنہ سے ڈر گیا اور سوچو تو سہی کہ امارت و خلافت میں کوئی آرام ہے؟ میں نے ایک عظیم ذمہ داری کا ’’قلادہ‘‘ اپنی گردن میں ڈال لیا ہے، جس کے اٹھانے کی مجھ میں سکت نہیں اور اللہ تعالیٰ کے سہارے کے سوا اسے نبھانے کی کوئی صورت نہیں‘‘ ۔
سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انتہائی مشکل حالات میں نظامِ خلافت کو سنبھالا۔ اس وقت مصائب و مشکلات نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا، ’’فتنہ ارتداد، جھوٹے مدعیان نبوت، مانعین و منکرین زکوٰۃ کے فتنہ نے طوفان کی صورت اختیار کر لی تھی۔ اسلام اور مرکز اسلام خطرہ میں دکھائی دینے لگے ۔ان حالات میں سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بڑی جرأت و بہادری کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے ان تمام فتنوں کا خاتمہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس وقت کفر کی دو بڑی طاقتیں روم اور فارس کو بھی شکست فاش دی۔
اسلام کی حدود پھیلتی چلی گئیں، ہر طرف امن و سکون اور خلافت راشدہ کے مقدس نظام کے ثمرات و برکات نظر آنے لگے، جنگ یمامہ میں کثیر تعداد میں حفاظِ قرآن کی شہادت کے بعد آپؓ نے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے مشورہ سے قرآن کی جمع و تدوین کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔
سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے دو سال تین ماہ گیارہ دن نظامِ خلافت کو چلانے کے بعد 63سال کی عمر میں وفات پائی، خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور روضہ رسول ﷺ میں اپنے محبوب امام الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ آج بھی آپ ؓ حضور ﷺ کے پہلو میں لیٹے جنت کے مزے لے رہے ہیں۔