سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ ﷺ سے پیار

تحریر : مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ باکمال شخصیت کے مالک تھے ،رسول اللہ ﷺ سے بے حد محبت و پیار و احترام کا رشتہ تھا۔آپؓ اسلام سے قبل بھی نبی اکرم ﷺ کی تعظیم کیا کرتے تھے اور آپﷺ کے اخلاقِ حسنہ سے بے حد متاثر تھے بلکہ آپ ﷺ کی صحبت میں کمال درجہ کا سکون و اطمینان محسوس کیا کرتے تھے۔

جب آپ ؓ کو یہ خبر ملی کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں کے پاس نیا دین لائے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی دعوت دے رہے ہیں تو آپ ؓ حضور نبی اکرم ﷺ کے در دولت کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ دولت اسلام سے اپنے سینہ مبارک کو مشرف بہ اسلام کریں۔ جب آپؓ دامن رسالت ﷺ پر پہنچے، آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اسلام کی دعوت دی جس کو آ پ نے قبول فرما لیا۔ آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی شان و مرتبہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ’’میں نے جس کو بھی دعوت اسلام دی اُس نے تردد کیا سوائے ابوبکرؓ کے‘‘ (تفسیر ابن کثیر، ج:2)۔

اگر عشق رسول ﷺ کی تاریخ لکھی جائے تو اس کا پہلا باب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے نام سے رقم ہو گا۔ آپ ؓحضور ﷺ سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے ۔ رسول اللہ ﷺکی حیات مبارکہ میں آپ ؓنے ایک عاشق و محب کی طرح زندگی بسر کی اوریہ ثابت کیا کہ آپؓ اپنے نبی ﷺ کے سچے عاشق ہیں۔ عشق رسول ﷺ کے باب میں ان کی سوانح حیات کا ایک ایک ورق، ان کے دن اور ان کی راتوں کا ایک ایک لمحہ کھلی کتاب کی طرح امت مسلمہ کیلئے ہدایت و رشد کا سامان فراہم کرتا ہے۔ایسی مثال آپؓ  نے غزوہ تبوک کے موقع پر پیش کی،جب آپ ؓ نے اپنا سارا مال و سامان حضور نبی اکرم ﷺ کے قدموں میں نثار کر کے عملاً یہ بات ثابت فر مادی کہ آپؓ کے نزدیک جان و مال حتیٰ کے ہر چیز سے بڑھ کر حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات محبوب ترین ہے۔

 حضرت سیدنا عمر فاروقؓ سے مروی ہے ’’آپ ﷺ نے ہمیں غزوہ تبوک کے موقع پر صدقہ کا حکم دیا،اس وقت میرے پاس مال بھی بہت زیادہ تھا، میں نے سوچا کہ آج اگر میں ابو بکرؓ سے آگے نکل گیا تو سمجھو کہ میں آگے نکل گیا۔ پس میں اپنا آدھا مال لے آیا، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا،اے عمر ؓاپنے اہل وعیال کیلئے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا: اتناہی مال اہل وعیال کیلئے چھوڑا ہے (جتنا آپ ﷺ کے پاس لے آیا ہوں)،پھر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق اکبرؓ آئے اور جو کچھ ان کے پاس تھا، وہ سارا سامان لے آئے، رسو ل اللہﷺ نے دریافت فرمایا: اے ابو بکرؓ! اپنے اہل وعیال کیلئے کیا بچایاہے؟ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کیا ’’اللہ اور رسول ﷺ (یعنی ان کی محبت) ان کیلئے چھوڑ آیا ہوں، پس میں نے کہا: اے ابو بکرؓ! میں آپ سے کسی چیز میں کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔

سیدنا ابوبکر ؓ  کو یہ تمغہ حاصل ہے کہ حضورﷺ نے آپ ؓ کو اپنا خلیل بنانے کی آرزو کی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو دوست بناتا تو ابوبکرؓ کو دوست بناتا‘‘(ابن ماجہ، ج:1، ص:70،رقم الحدیث:93)۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ آپ ﷺکا کتنا تعلق و پیار کا رشتہ تھاکہ آپ ﷺان کو اپنا دوست بنا نے کی بات کر رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیلئے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان کیا ہے۔ بعض ایسے بھی خوش نصیب ہیں، جنہیں نبوت نے اپنی زبانِ مبارک سے نام لے کر جنتی ہونے کی بشارت دی، جیسے عشرہ مبشرہ صحابہ کرام ؓہیں، لیکن سیدنا صدیق اکبر ؓ ان خوش نصیب افراد میں سے ہیں جن کو نہ صرف آپ ﷺنے جنتی ہونے کی بشارت دی بلکہ  جنت میں اپنا رفیق ہونے کی بھی اللہ تعالیٰ سے درخواست کی۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے (ایک مرتبہ) اپنے ہاتھ کو (اللہ کے دربارمیں) اُٹھایا اور فرمایا: اے اللہ! ابوبکرکو قیامت کے دن میرے ساتھ درجہ عطا فرما، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی گئی کہ ہم نے آپ کی دعا کو قبول کرلیا ہے‘‘ (الشریعۃ، ج:4، ص:1787،رقم الحدیث:1275)۔

 غارثور صاف کرنے اوراپنی چادر سے سوراخ بند کرنے کے بعدآنحضرتﷺکواندربلایا،سفر اور پہا ڑی راستے کی تھکان تھی،  حضرت ابوبکرؓنے آقا کیلئے زانو پھیلا دیئے،سردار دوجہاں ﷺ آپ کے زانومبارک پر سر مبارک رکھ کر سوگئے،کتنی مبارک وہ گود جس میں امام الانبیاءﷺ نے سراقدس رکھا،ادھرغار کاایک سوراخ بند نہ ہوسکا،حضرت ابوبکرؓنے اپنا پاؤں مبارک رکھ دیا،زہریلے سانپ نے ڈس لیا،تکلیف کی شدت بڑھتی رہی اورآپؓضبط کرتے رہے مگربے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اوررخ انور پر گرے،جس سے آنکھ مبارک کھل گئی۔ حضرت ابوبکرؓکو پریشان دیکھ کروجہ دریافت کی آپؓ نے آگاہ کیا،تو آنحضرتﷺ نے اپنا لعاب مبارک،جہاں سانپ نے ڈسا تھا لگایا تو تمام تکلیف دور ہوگئی اورزہر کا اثر جاتا رہا۔(سیرۃ حلبیہ،اردو ص 98ج3)۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے اسوہ ٔ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

یوم وفات ابوبکر صدیق ؓ، صدیق ؓکیلئے ہے خدا کا رسول ﷺ بس

آپؓ نے پوری زندگی میں کوئی ایسا فعل نہیں کیا جو نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہو

خلیفہ اوّل، حضرت ابوبکر صدیق ؓ

سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے انتہائی مشکل حالات میں نظامِ خلافت کو سنبھالا

پیکر صدق و وفا کے امتیازی خصائص

سیرت صدیقؓ کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے جہاں ہم انہیں رفیق غار کے اعزاز سے بہرہ ور دیکھتے ہیں، وہاں بعد ازوفات رفیق مزار ہونے کی عظیم سعادت سے بھی آپ ؓ سرفراز دکھائی دیتے ہیں۔ آپؓ کی حیات مطہرہ میں کچھ خصائص ایسے نظر آتے ہیں جو پوری ملت اسلامیہ میں آپؓ کو امتیازی حیثیت بخشتے ہیں۔

اصول پسند قائد ،قائد اعظم محمد علی جناحؒ

مسلم عوام میں کوئی کمی یا خرابی نہیں ،وہ یقیناًایک منظم اور باضابطہ قوم ہیں،لیڈران میں بدنظمی پیداکردیتے ہیں:قائد اعظم ؒ بانی پاکستان کی صداقت و دیانت، معاملہ فہمی اور گفتارو کردار کے سب معترف رہے

قائد اعظمؒ کا لقب کس نے دیا ؟

قائداعظم محمد علی جناحؒ کو ’’قائد اعظم‘‘کالقب جن شخصیات نے دیا، اُن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ انسائیکلو پیڈیا ’’پاکستانیکا‘‘ کے مطابق مولانا مظہر الدین نے جناحؒ کو پہلی بار ’’قائداعظم‘‘ کالقب دیا تھا۔ دسمبر 1937ء میں مولانا نے محمد علی جناحؒ اور لیاقت علی خان کو دہلی میں استقبالیہ دیا اور اپنے ادارے کی جانب سے سپاس نامہ پیش کیا۔اس سپاسنامے میں جناح ؒ کو ’’قائداعظم، فدائے ملک و ملت،رہنمائے ملت اور قائدملّت‘‘ جیسے خطابات سے نواز گیا۔ اس کے بعد تو مولانا نے جناح صاحب کے لقب’’قائداعظم‘‘ کی باقاعدہ تشہیر شروع کردی تھی۔

قائد اعظمؒ کا معاشی پلان

قائداعظم محمد علی جناحؒ نے شروع ہی سے مسلمانوں کوتجارت کی طرف راغب کیا۔آپؒ نے 27دسمبر 1943ء میں مسلم ایوان تجارت کراچی میں فرمایا: ’’پاکستان میں آنے والے علاقوں میں زبردست اقتصادی امکانات موجود ہیں۔ انہیں زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے‘‘۔