اصول پسند قائد ،قائد اعظم محمد علی جناحؒ
مسلم عوام میں کوئی کمی یا خرابی نہیں ،وہ یقیناًایک منظم اور باضابطہ قوم ہیں،لیڈران میں بدنظمی پیداکردیتے ہیں:قائد اعظم ؒ بانی پاکستان کی صداقت و دیانت، معاملہ فہمی اور گفتارو کردار کے سب معترف رہے
سوال یہ ہے کہ ایک لیڈر کے پیش نظر اپنی مقبولیت کی بقاہونی چاہیے یا اصول وضوابط کی سر بلندی؟ ذاتی مفاد کے اعتبارسے تو اپنی مقبولیت کی بقا ہی سب سے اہم ہوتی ہے کہ عوام بادشاہوں کی طرح ہوتے ہیں کبھی تودشنام پر بھی خوش ہوجاتے ہیں اور کبھی سلام سے بھی رنجیدہ۔اس لیے عام طورسے لیڈرز عوامی مقبولیت کا ہر لمحہ خیال رکھتے ہیں اور اس کی خاطر خود اپنے اصولوں کو بھی قربان کردیتے ہیں اور عوامی خوشنودی، ہر شے پر مقدم رہتی ہے ۔ انجام کے اعتبارسے یہ رویہ میکیاویلین سیاست کو جنم دیتا ہے۔ میکیا ویلی کی کتاب ’’پرنس‘‘ کے تعارف نگار میکس لیریزکے خیال میں: ’’حقیقت یہ ہے کہ آپ کا تعلق تجارت سے ہو، سیاست سے ہو یا نجی مسئلہ سے، آپ اپنے شعبے کی اخلاقی اقدار کے مطابق عمل نہیں کرتے۔ کامیاب اسٹیٹس مین ایک فنکار ہوتا ہے جو عوامی موڈ کی باریکیوں، عملی سیاست کی ضروریات، اپنے مخالفین کی جانچ پڑتال، سمجھوتوں اورانھیں رعایات دے کر اپنی پوزیشن مضبوط بنانے سے پوری طرح آگاہ ہوتاہے۔اس کے نزدیک وہ لوگ جن پر اصلاح یا اصول کا رنگ غالب ہوتاہے ،انھیں اگر کامیابی ہوبھی جائے تو وہ کامیابی محض عوامی شعبوں کو اخلاقی معیارات کے قریب لانے تک محدودہوتی ہے وہ کبھی کامیاب سٹیٹس مین نہیں بن سکتے‘‘۔
میکیاویلی کی یہ کتاب 1532ء میں اس کی وفات کے پانچ برس بعد شائع ہوئی تھی لیکن آج تک دنیابھر کے بے اصول حکمرانوں کے لیے سیاسی اقتدارکی بوطیقاکادرجہ رکھتی ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ترقی پذیر ممالک کی قیادت بھی اس میکیاویلین ماڈل سے متاثرہوتی رہی ہے جس میں جھوٹ، وعدوں کی خلاف ورزی، دھوکا دہی، ظلم، ناانصافی سب کچھ جائز اورصرف پارٹی کا مفاد اور اقتدار کی بقاہی اوّل و آخر مقصود ہوتاہے۔ اس تصور کے تحت سیاست، سمجھوتے کانام ہے اور جمہوریت سیاست ہے۔اس لیے ایک کامیاب لیڈر کیلئے تیزی طراری اورپینترے بدلنا لازم سمجھا جاتا ہے۔ لیڈر ایک اداکار ہوتا ہے جو حسبِ ضرورت عوام کے جذباتی استحصال سے کام چلاناجانتاہے۔ دوسرا ماڈل وہ ہے جس کی طرف ہماری مشرقی روایت راہ نمائی کرتی ہے اور جس کے ایک نمائندے کے طور پر اقبالؒ نے اس میکیاویلین ماڈل کو شدید تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے !
آن فلارنساوی باطل پرست سرمۂ او دیدئہ مردم شکست
فطرت او سوی ظلمت بردہ رخت حق زتیغ خامۂ اولخت لخت
بت گری مانند آزر پیشہ اش بست نقش تازئہ اندیشہ اش
باطل ازتعلیم او بالیدہ است حیلہ اندازی فنی گردیدہ است
طرح تدبیرزبون فرجام ریخت این خسک در درجادئہ ایام ریخت
شب بچشم اہل عالم چیدہ است مصلحت تزویررانامیدہ است
یعنی وہ باطل پرست اطالوی جس کے دیے ہوئے سرمے نے انسانوں کی آنکھیں پھوڑدیں،اس کی فطرت انسانوں کے قافلے کو تاریکی کی طرف لے گئی، اس کے قلم کی تلوارنے صداقت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے،اس نے بھی آزرکی مانند بت گری کا شیوہ اختیارکیا۔اس کی فکرنے ایک نئے نظریے کی بنیاد رکھی، اس کی تعلیمات سے باطل نے فروغ پایااورحیلہ گری نے فن کی صورت اختیارکرلی۔اس نے ایک ایسے مسلک کی بنیادرکھی جس کا انجام بہت براتھا اور یوں اس نے زمانے کی راہ میں کانٹے بکھیر دیے،اس نے دنیاوالوں کی آنکھوں کے سامنے رات کی تاریکی پھیلادی اور مکروفن کانام مصلحت رکھ دیا۔
اس میکاویلین ماڈل کے مقابلے میں وہ اخلاقی تعلیمات پیش کی جاسکتی ہیں جن کے مطابق خارج کی تمام ترناموافقت کے باوصف انسان اپنے اصولوں پر قائم رہتاہے اور وقتی مقبولیت کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے اپنے نظریے کا علم بلندرکھتاہے۔س منظرنامے میں اہل پاکستان کیلئے بہت قریب کی ایک مثال قائداعظم محمدعلی جناح کی ہے جنھوں نے بے مثال عوامی مقبولیت کے باوجود کبھی اصولوں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اوریوں عوامی مقبولیت کی تاریخ میں ایک منفردمثال قائم کی۔
مقبولیت اور اصول پسندی میں پایا جانے والا تفاوت قائداعظمؒ کے ہاں کیسے تحلیل ہوا اس کی ایک مثال کے طور پر 1942ء میں ہونے والے انتخابات کی انتخابی مہم کو یاد کیا جا سکتاہے۔ اس انتخابی مہم کے دوران قائداعظمؒ بنگال اور آسام کے دورے پر تھے۔ سفرریل کاتھا جسے ’’پاکستان اسپیشل‘‘کانام دیاگیاتھا۔عوام تھے کہ اپنے قائدکی ایک جھلک دیکھنے کیلئے راستے کے اسٹیشنوں پر پہروں بلکہ بعض اوقات ساراسارادن منتظررہتے اور جب طویل انتظارکے بعد ٹرین اسٹیشن پر پہنچتی تواپنے محبوب قائدکی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب ہوجاتے ایسے میں نظم و ضبط حتی کہ ٹرین کے رکنے کے مقررہ اسٹیشنوں کابھی لحاظ نہ رہتا اور ٹرین کو ان سٹیشنوں پر بھی روک لیاجاتا جن پر ٹرین کارکنا طے نہیں تھا ۔ ایسے اسٹیشنوں پر روکنے کیلئے لوگ درخت کاٹ کر ریلوے لائن پر لا کر رکھ دیتے یاکہیں سے ہاتھی لاکرٹرین کے سامنے کھڑاکردیتے یہاں تک کہ جوش عقیدت میں ریل کی پٹری پر خودلیٹ جاتے، جب ڈرائیور مجبورہوکرٹرین روک لیتا تو لوگ قائداعظمؒ کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تابانہ قائدؒ کے کمپارٹمنٹ کی طرف لپکتے اور ان سے باہر آ کر مجمعے سے خطاب کرنے کا مطالبہ کرتے۔ ایک عام سیاستدان ہوتاتووہ اپنی اس مقبولیت پر پھولانہ سماتااور خود پر نثارہونے والے ان پروانوں کی ہر بات مانتا لیکن قائداعظمؒ ان باتوں سے خوش ہونے کی بجائے ناراض ہوتے اور ایسے مجمعوں سے خطاب کرنے سے انکار کر دیتے تھے۔
’’پاکستان ا سپیشل‘‘ جب سفرکرتی ہوئی میمن سنگھ کے اسٹیشن پر پہنچی تو یہاں لوگ استقبالیہ ہجوم میں جگہ پانے کیلئے پہروں نہیں دنوں پہلے سے جمع تھے۔راستے میں ایسے ہی بے پناہ مجمعوں سے نپٹتی ہوئی ٹرین تیس (30)گھنٹے کی تاخیر سے یہاں پہنچی تھی۔رات کا وقت تھا لیکن قائدکے پروانے دیوانہ وار ادھر ادھر بھاگے، اپنے لیڈرکی ایک جھلک دیکھنے کیلئے درختوں، عمارتوں اور چھتوںپر چڑھ گئے۔ ؎پلیٹ فارم پر تل دھرنے کی جگہ نہ رہی ،لوگ بے تاب تھے کہ قائداعظمؒ اپنے کمپارٹمنٹ سے باہر آکر ان سے خطاب کریں ۔
قائداعظمؒ کوعوام کی اس خواہش سے آگاہ کیاگیااور بتایاگیاکہ کس طرح لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے اور انھیں سننے کی خواہش میں یہاں جمع ہیں۔ ان سے درخواست کی گئی کہ وہ باہر تشریف لائیں اور ریلوے پل پر کھڑے ہوکرمجمعے سے خطاب کریں، بدنظمی اور ہڑبونگ کا یہ منظردیکھ کر اپنی مقبولیت سے خوش ہونا اور لوگوں کا شکریہ ادا کرنا تو ایک طرٖف انھوں نے ٹرین سے باہر آنے سے بھی انکارکردیا۔ایک عام لیڈر کے خیال میں اس انکارسے اس کی مقبولیت متاثرہوسکتی تھی، یہ انکارالیکشن کے نتائج پر بھی اثر اندازہوسکتاتھا لیکن قائداعظمؒ کے نزدیک ان باتوں سے زیادہ اہم قوم کی تربیت اور اصول و ضابطے کی سربلندی تھی۔ چنانچہ باہر لوگ پوپھٹنے تک قائداعظمؒ زندہ باد، مسلم لیگ زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے لیکن قائداعظمؒ کے انکارکے بعد ٹرین کسی جلسے اور خطاب کے بغیرہی میمن سنگھ سے روانہ ہو گئی۔
کچھ وقفوں کے بعد آگے ایک دیہی اسٹیشن تھا وہاں ٹرین پہنچنے سے پہلے اس واقعے کی اطلاع پہنچ چکی تھی۔مرزاابوالحسن اصفہانی راوی ہیں کہ موقع کی نزاکت کے پیش نظر میں نے قائداعظمؒ کے استقبال کیلئے جمع ہونے والے عوام سے خطاب کیاا ور میمن سنگھ کا واقعہ بیان کرکے ان سے درخواست کی کہ وہ قائداعظمؒ کی آمدپر انتہائی نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں اور قائداعظمؒ کو یقین دلادیں کہ ہم ایک منتشر اور غیرذمہ دار مجمع نہیں بلکہ ایک منظم اور متحدقوم ہیں۔چنانچہ ایساہی ہوا ،وہ لوگ جو کچھ دیرپہلے تک ایک بے ہنگم ہجوم تھے تربیت یافتہ اور منظم فوجی بٹالین کی طرح منظم ہو کر قطار درقطار کھڑے ہوگئے اور پاکستان زندہ باد،مسلم لیگ زندہ باد، قائداعظم زندہ بادکے نعرے لگانے لگے جیسے ہم ہندوستان کی سرزمین پر نہیں پاکستان میں کھڑے ہوں۔
قائداعظم کی ٹرین پہنچی، انھوں نے اپنے کمپارٹمنٹ سے یہ منظردیکھا اور ٹرین سے باہر آ گئے۔ اس ترتیب و تنظیم کے مشاہدے سے خوش ہوئے اور بڑے فخریہ لہجے میں عوام سے خطاب کیا اور ان کی ترتیب و تنظیم کی تعریف کی۔ قائداعظمؒ کا کہناتھا کہ مسلم عوام میں کوئی کمی یا خرابی نہیں ہے ،وہ یقیناًایک منظم اور باضابطہ قوم ہیں لیکن ہمارے لیڈران میں بدنظمی پیداکردیتے ہیں، اگریہ لیڈرانھیں منظم کرناچاہیں تو یہ سادہ دل عوام ان کی پیروی ضرورکریں گے ۔اگرلیڈرمیں قوم کی راہ نمائی کی صلاحیت ہوتو عوام یقیناً اس کی قیادت کو قبول کرتے ہیں۔یہ ہے وقتی اور ہنگامی مقبولیت پر اصول کی فتح ۔اگر لیڈرکے باطن میں صداقت موجودہے تو نامقبولیت کے اندیشے، وقتی ثابت ہوتے ہیں اور اصول سر بلند ہو کر اس کی مقبولیت کو زیادہ مستحکم بنیادوں پر استوار کردیتے ہیں۔
جناح کی حیات وخدمات
قائداعظم محمد علی جناحؒ 25 دسمبر 1876ء کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم سندھ مدرسۃ الاسلام اور انجمن اسلام ہائی سکول سے حاصل کی۔ 1893ء میں اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان روانہ ہوئے، جہاں انہوں نے قانون کی تعلیم کیلئے لنکنز ان میں داخلہ لیا۔ 19سال کی عمر میں قائداعظمؒ ہندوستان کے کم عمر ترین بیرسٹر بن گئے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ 1892ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔اپنی پہلی اہلیہ اور والدہ کے انتقال کے وقت وہ انگلینڈ میں مقیم تھے۔ 1918ء میں سر ڈنشا کی بیٹی رتی بائی سے شادی ہوئی۔ ان کی دوسری اہلیہ ایک ذہین اور خوش مزاج خاتون تھیں۔ انہو ں نے محمد علی جناحؒ کی زندگی کو ایک نیا حسن بخشا۔ 1918ء سے لے کر 1928ء تک وہ ہر جگہ آپؒ کے ساتھ رہیں۔ 1928ء سے وہ بیمار رہنے لگیں اور 20 فروری 1929ء کو دنیا فانی سے رخصت ہو گئیں۔
حضرت قائد اعظم ؒ نے دادابھائی نوروجی کی انتخابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،اس انتخاب میں دادا بھائی نوروجی برطانوی پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے کامیاب ہوئے۔
دسمبر 1909ء میں سپریم امپریل لیجسلیٹو کونسل کیلئے بمبئی کے حلقہ انتخاب سے وہ مسلمانوں کی مخصوص نشست پر بلا مقابلہ کامیاب ہوئے۔ اس کونسل میں آپؒ نے بہت فعال کر دار ادا کیا۔
وقت نے ثابت کر دیا کہ محمد علی جناحؒ کی راہنمائی اور مسیحائی نے قوم کو واقعی بستر مرگ سے اٹھا کر تندرست و توانا کر دیا۔قائداعظمؒ بے پایاں قوت ارادی کے مالک تھے ،جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرلیتے تو پھر کوئی فریب یا لالچ انہیں ان کے راستے سے نہیں ہٹا سکتا تھا۔ عزم و استقلال ان کی ذاتی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔
قائداعظم ؒ بہت کم خوراک کھاتے تھے ،آپؒ ناشتہ میں ایک انڈا اور مکھن کے ساتھ ایک یا ڈیڑھ ٹوسٹ کھاتے تھے۔ کبھی کبھی شہد یا جام بھی ٹوسٹ کے ساتھ کھاتے۔ سری پائے آپؒ کو بہت مرغوب تھے، مہینہ میں ایک بار ناشتہ میں ضرور کھاتے۔ شوربے دار سالن بالکل پسند نہیں تھا ۔ آم بہت شوق سے کھاتے تھے۔قائداعظم تنہائی میں زیادہ آرام محسوس کرتے تھے۔
1940ء میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد انہوں نے جس جانفشانی اور مستقل مزاجی سے اپنی قوم کی آزادی کیلئے جنگ لڑی اس سے ان کی صحت پر بہت منفی اثر مرتب ہوئے۔یکم ستمبر 1948ء کو اُن کے معالج کرنل الٰہی بخش نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو بتایا کہ قائداعظم پر ہیمبرج کا حملہ ہوا ہے، انہیں فوراً کراچی لے جانا چاہیے، کوئٹہ کی بلندی ان کی تکلیف کے پیش نظر مناسب نہیں ہے ۔ 11ستمبر 1948ء کو آپ ؒ رب کے حضور پیش ہو گئے۔ 12ستمبر 1948ء کو کراچی میں قائداعظمؒ کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی کی امامت میں ادا کی گئی۔ لاکھو ں فرزندان قوم نے بابائے قوم کی نماز جنازہ ادا کی۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے آپ ؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے برملا کہا کہ ’’شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان پیدا نہیں کیاجس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے کروڑوں افراد کی مایوسیوں کو کامرانی میں بدل دیا‘‘۔