اسلام میں اقلیتوں کے حقوق
’’اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے‘‘ (الحجرات: 13)
اسلام شرفِ اِنسانیت کا علمبردار دین ہے۔ ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرف انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقات معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے، جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ اسلام ان تمام حقوق جن کا تعلق ریاست کے نظم و ضبط اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے ہو غیرمسلم اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں ان غیر مسلموں کے ساتھ، جو اسلام اور مسلمانوں سے برسرپیکار نہ ہوں اور نہ ان کے خلاف کسی سازشی سرگرمی میں مبتلا ہوں، خیرخواہی، مروت، حسن سلوک اور رواداری کی ہدایت دی گئی ہے۔قرآن مجیدمیں ہے: اللہ تعالیٰ تم کو منع نہیں کرتا ہے ان لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان سے کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک‘‘ (الممتحنہ : 8)
اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کر کے فراہم کی گئی ہے، قرآن مجیدمیں ہے: ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبود انِ باطل کا انکار کر دے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کیلئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے‘‘(البقرہ: 256)
اسلام میں اقلیتوں کے حقوق
اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرمﷺ کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے: ’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا‘‘ (ابو داؤد: 3052)۔ یہ صرف ایک تنبیہ نہیں بلکہ ایک قانون ہے جو نبی اکرم ﷺ کے دورِ مبارک میں اسلامی مملکت میں جاری تھا، جس پر بعد میں بھی عملدرآمد ہوتا رہا اور اب بھی یہ اسلامی دستورِ مملکت کا ایک حصہ ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: ’’ایک مسلمان نے ایک اہل کتاب کو قتل کر دیا اور وہ مقدمہ نبی کریمﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں اہل ذمہ کا حق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں، چنانچہ آپﷺ نے قاتل کے بارے میں قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے قتل کر دیا گیا‘‘(سنن الکبری: 30/8)
اقلیتوں سے حسن سلوک
حضور نبی اکرم ﷺ اقلیتوں کے بارے میں مسلمانوں کو ہمیشہ تنبیہ فرمایاکرتے تھے۔ ایک دن آپﷺ نے اقلیتوں کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: ’’جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پھیلی ہوئی ہے‘‘ (صحیح بخاری:2995)۔ یہ تنبیہات اس قانون پر عمل درآمد کروانے کیلئے ہیں جو اسلام نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے عطا کیا۔
حضور نبی اکرم ﷺ خود بیرونی علاقوں سے آنے والے غیر مسلم وفود کی میزبانی فرماتے۔ جب مدینہ منورہ میں آپﷺ کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپﷺ نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور فرمایا: ’’یہ لوگ ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے میں نے پسند کیا کہ میں خود ان کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کروں‘‘ (شعب الایمان : 9125)۔حضور نبی اکرم ﷺ کی ان تعلیمات کی روشنی میں چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آپﷺ کے زمانے سے لے کر ہر اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کو اپنے حقوق کا تحفظ حاصل رہا۔ اقلیتوں سے حضور نبی اکرمﷺ کے حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ ان کا برتاؤ بھی آپﷺ کے ساتھ احترام پر مبنی تھا۔
اقلیتوں سے تعلق داری کاحق
غیر مسلموں کے ساتھ ربط و تعلق کے سلسلہ میں اسلام نے دو بنیادی تصور دیے ہیں۔
پہلابنیادی تصور:تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں جیساکہ قرآن مجیدمیں ہے: ’’اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو قبائل اور خاندانوں میں اس لئے تقسیم کیا ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‘‘ (الحجرات: 13)۔ رسول اکرمﷺ نے اپنے مختلف ارشادات میں اس بات کی وضاحت فرمائی ہے۔ آپﷺنے فرمایا: ’’تم سب کے سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام کومٹی سے تخلیق کیا گیا‘‘(مجمع الزوائد:13089)۔ آپﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطبہ میں اپنی تعلیمات کا خلاصہ دو جملوں میں پیش فرمایا: یقیناً تمہارا خدا ایک ہے اورتمہارے باپ بھی ایک ہی ہیں‘‘ (کنز العمال: 5652)، تمام انسانوں کی ایک ماں باپ سے پیدائش کے تصور سے دوسرا تصور انسانی اُخوت کا پیدا ہوتا ہے کہ تمام انسان، چاہے وہ کسی مذہب کے ماننے والے ہوں، کالے ہوں یا گورے، سب بھائی بھائی ہیں، چنانچہ آپﷺ نے ایک موقع پر اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’تمام بنی آدم بھائی بھائی ہیں‘‘ (ابودائود: 1510)
دوسرا بنیادی تصور: انسان بحیثیت انسان قابل احترام ہے اور دنیا کی جو بے شمار نعمتیں ہیں، چاہے ان کا تعلق خشکی سے ہو یا سمندر سے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جو بھی پاک غذائیں پیدا کی ہیں، ان سب میں تمام انسانوں کا حق ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف مسلمانوں کیلئے مخصوص ہیں۔ ’’ہم نے بنی آدم کو باعزت بنایا ہے، ہم نے ان کو خشکی میں اور سمندر میں سوار کیا ہے اور انہیں پاکیزہ روزی عطا کی ہے‘‘ (بنی اسرائیل:70)۔ رسول اللہﷺ نے اپنے مختلف ارشادات میں انسان کی فطری شرافت و وقار کا ذکر فرمایا ہے۔ (کنز الاعمال کی حدیث نمبر 34621 میں) گویا اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے نزدیک یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ کوئی شخص مسلمان ہو یا غیر مسلم، وہ انسان ہونے کی حیثیت سے قابل احترام اور باعزت ہے اور کائنات میں اللہ تعالیٰ نے جو وسائل رکھے ہیں، ان پر صرف مسلمانوں کا حق نہیں ہے بلکہ تمام انسانوں کا حق ہے۔یہ دو بنیادی اصول ہیں، جن پر اسلامی نقطہ نظر سے مسلم وغیر مسلم تعلقات کی بنیاد ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے اخلاق و سیرت سے اس کے عملی نمونے پیش کئے ہیں۔
باہمی احترام ومحبت کاحق
رسول اللہ ﷺ غیر مسلم حضرات کے ساتھ ہمیشہ باہمی احترام و اکرام کا معاملہ فرماتے تھے، آپﷺنے متعدد غیر مسلم بادشاہوں اور سرداروں کو خطوط لکھے اور انھیں اسی لقب سے مخاطب کیا، جس لقب سے ان کی رعایا ان کا ذکر کیا کرتی تھی۔ جیسے روم کے بادشاہ ہرقل کیلئے ’’عظیم الروم‘‘، ایران کے بادشاہ کسریٰ کیلئے ’’عظیم الفارس‘‘ اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی کیلئے ’’عظیم الحبش‘‘ (کنز العمال:11302)۔ابوجہل، آپ ﷺ کا بدترین دشمن تھا، اس کے اندر فیصلہ کرنے اور لوگوں کے معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت تھی، اس لئے اہل مکہ اس کو ’’ابو الحکم‘‘ کہتے تھے، آپ ﷺ نے بھی اس کو ابوالحکم کے نام ہی سے مخاطب فرمایا (سیرت ابن ہشام:1389)
آپﷺ نے نہ صرف زندگی میں بلکہ مرنے کے بعد بھی اس تکریم و احترام کو پیش نظر رکھا۔ حضرت سہل بن حنیفؓ اور قیس بن سعدؓ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ دونوں قادسیہ میں بیٹھے ہوئے تھے، سامنے سے جنازہ گزرا تو یہ دونوں حضرات کھڑے ہوگئے۔ کہا گیا یہ کسی مسلمان کا جنازہ نہیں ہے، غیر مسلم کا جنازہ ہے۔ ان حضرات نے کہا: رسول اللہﷺ کے سامنے سے جنازہ گزرا تو آپﷺ بھی کھڑے ہوگئے تھے، آپﷺ سے عرض کیا گیا تھا: یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے، آپﷺ نے فرمایا: کیا وہ انسان نہیں تھا؟ (بخاری: 1312)۔
غیر مسلم رشتہ داروں کاحق
اسلام اپنے ماننے والوںکو بلند اخلاق اور اعلیٰ ظرفی کی تعلیم دیتا ہے، اسلامی شریعت یہ نہیں چاہتی کہ بد اخلاقی اور نامناسب زبان استعمال کی جائے، یا کسی بھی معاملے میں تنگ ذہنی برتی جائے۔ اسلام نے مسلمانوں کو باہمی اخلاقیات کی جو تعلیم اور ہدایات دی ہیں، ان کا راست مصداق تو مسلمان ہیں، تاہم غیر مسلم افراد بھی اس میں شامل ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک و ہمدردی کرنے کی تاکیدکی گئی ہے۔ قرآن مجید میں بہت سے مواقع پر رشتہ و قرابت کا لحاظ رکھنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔ نیز رسول اللہﷺ نے فرمایا: قرابت دار کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں دوہرا ثواب ہے، صدقہ کا بھی اور صلہ رحمی کا بھی (ترمذی:618)
صلح حدیبیہ کے بعد حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ کی ماں جو مشرکہ تھیں کچھ تحائف لے کر اپنی بیٹی سے ملنی آئیں۔ حضرت اسماءؓ نے انہیں اپنے گھر میں آنے اور تحائف لینے سے انکار کیا۔ حضور ﷺ سے دریافت کیا، کیا میں ان سے تعاون و ہمدری کرسکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو(صحیح مسلم:1003)۔ اسی طرح مختلف صحابہ کرام ؓ کے والدین یا ماں باپ میں سے کوئی ایک غیر مسلم تھے، جیسے حضرت ابوبکرؓ کے والد حضرت قحافہ مکہ فتح ہونے تک مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن حضرت ابوبکرؓ ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہے۔ مدینہ کے کئی انصاری صحابیؓ اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کی مالی مدد کیا کرتے تھے۔ اِن مسلمانوں نے اپنے اُن رشتہ داروں کو اسلام لانے کی دعوت دی مگر وہ مسلمان ہونے کو تیار نہیں ہوئے، تو انھوں نے ان کی مدد روک دی، ان کے اس طرز عمل کو قرآن نے منع کیا( تفسیر قرطبی: 3337) کہ ان کی ہدایت تمہارے ذمہ نہیں ہے، اللہ جس کو چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں (البقرہ: 272)
غیر مسلم پڑوسی کاحق
انسان کا سب سے قریبی تعلق اس کے پڑوس سے ہوتا ہے، یہ تعلق جتنا مضبوط ہو اتنا ہی سکون و اطمینان عطا کرتا ہے۔ قرآن مجید میں دو طرح کے پڑوسیوں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک رشتہ دار پڑوسی، دوسرے اجنبی پڑوسی (النساء: 36)۔بعض مفسرین نے تو اس سے خاص طورپر غیر مسلم پڑوسی ہی مراد لیا ہے اور ان دونوں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔