حق گوئی کی تلقین

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیع


حق بات کہنے میں تردّد نہ کرنا گو کسی کو کڑوی لگے، اللہ کے معاملے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا (صحیح ابن حبان)

حق گوئی و بے باکی بھی شجاعت و بہادری ہی کی ایک خاص قسم ہے، جس کا تعلق انسان کی زبان سے ہے۔ جب دُنیوی اور مادّی طاقت کے اعتبار سے حق کمزور اور باطل طاقتوَر ہو تو اُس وقت باطل کے مقابلے میں حق کو بیان کرنا انتہائی قابل ستائش عمل ہے۔ اِس لئے کہ ایسے میں حق گو انسان کو دسیوں قسم کے خطرات (لوگوں کی ملامت اور لعن طعن کرنے، مال ودولت اورنفس و جان پر بن پڑنے )کا ہمہ وقت اندیشہ رہتا ہے ، بالخصوص ظالم و جابر بادشاہ اور حکمران کے سامنے تو کلمۂ حق کہنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اِسی لئے حضورِ اقدس ﷺ نے فرمایا کہ : ’’بہترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا کہنا ہے!‘‘ (ابو داؤد)۔

اِسلام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے جو مدارج مقرر کیے گئے ہیں اُن میں دوسرا درجہ اسی حق گوئی کا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی ناجائز امر کو ہوتے ہوئے دیکھے ، اگر اُس پر قدرت ہو کہ اُس کو ہاتھ سے بند کردے تو اُس کو بند کردے۔ اگر اتنی مقدرت نہ ہوتو زبان سے اُس پر انکار کردے۔ اگر اتنی بھی قدرت نہ ہوتو دل سے اُس کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا بہت ہی کم درجہ ہے (مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)۔

حضورِ اقدس ﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری ؓ کو جو نصیحتیں فرمائی تھیں، من جملہ اُن کے ایک یہ بھی تھی کہ حق بات کہنے میں تردّد نہ کرنا گو کسی کو کڑوی لگے، اللہ کے معاملے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا۔ (صحیح ابن حبان) ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’تم میں سے کسی کو جب کوئی حق بات معلوم ہو تو اُس کے کہنے سے انسانوں کا خوف مانع نہیں ہونا چاہیے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺنے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھے! صحابہ کرامؓنے عرض کیا: ’’یارسول اللہﷺ! ہم میں کوئی شخص اپنے آپ کو حقیر کس طرح سمجھ سکتا ہے؟‘‘ تو آپﷺنے فرمایا : ’’اِس طرح کہ اُس کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایک بات کے کہنے کی ضرورت ہو اور وہ نہ کہے۔ ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے : ’’ تم کو میرے متعلق فلاں فلاں بات کے کہنے سے کس چیز نے منع کیا تھا؟ وہ کہے گا کہ انسانوں کے خوف نے!‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم کو تو سب سے زیادہ میرا خوف رکھنا چاہیے تھا‘‘( ابن ماجہ)

صحابہ کرام ؓ میں حضرت ابو ذر غفاری ؓ کو حق گوئی و بے باکی میں کمال کا درجہ حاصل تھا۔ جب آپؓ نے اسلام قبول کیا توحضورِ اقدسﷺ نے آپؓ کی تکلیف کے خیال سے از راہِ شفقت فرمایا کہ: ’’اپنے اسلام کو ابھی ظاہر نہ کرنا، چپکے سے اپنی قوم میں چلے جاؤ!جب ہمارا غلبہ ہوجائے اُس وقت چلے آنا‘‘۔ اُنہوں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہﷺ! اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اِس کلمۂ توحید کو اِن بے ایمانوں کے بیچ میں چلا کر پڑھوں گا۔ اُسی وقت مسجد حرام میں تشریف لے گئے اور بلند آواز سے ’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ واشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ‘‘ پڑھا۔ پھر کیا تھا؟ چاروں طرف سے لوگ اٹھے اور اِس قدر مارا کہ مرنے کے قریب ہوگئے۔ حضور ﷺکے چچا حضرت عباس ؓ (جو اُس وقت تک مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے) اُن کے اوپر بچانے کیلئے لیٹ گئے اور لوگوں سے کہا کہ کیا ظلم کرتے ہو؟یہ شخص قبیلہ ’’غفار‘‘ کا ہے۔ اور یہ قبیلہ ملک شام کے راستہ میں پڑتا ہے۔ تمہاری تجارت وغیرہ سب ملک شام کے ساتھ ہے۔ اگر یہ مرگیا تو ملک شام کا جانا آنا بند ہوجائے گا۔ اِس پر اُن لوگوں کو بھی خیال ہوا کہ ملک شام سے ساری ضرورتیں پوری ہوتی ہیں، وہاں کا راستہ بند ہوجانا مصیبت ہے، اِس لئے اُن کو چھوڑ دیا۔دوسرے دن پھر اسی طرح اُنہوں نے جاکر بآوازِ بلند کلمہ پڑھا اور لوگ اِس کلمہ کے سننے کی تاب نہ لاسکتے تھے۔ اِس لئے اُن پر ٹوٹ پڑے۔ دوسرے دن بھی حضرت عبا س ؓ نے اسی طرح اُن کو سمجھا کر ہٹایا کہ تمہاری تجارت کا راستہ بند ہوجائے گا۔(حکایاتِ صحابہؓ:ص81) بعد میں جب نبی کریم ﷺ کو اِس بات کا علم ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کہ : ’’آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ابوذرؓ سے زیادہ حق گو کوئی نہیں‘‘ (جامع ترمذی)

غرضیکہ جس طرح اسلام کی نشر و اشاعت اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر ہاتھ پاؤں کے ذریعہ کفریہ طاقتوں کو شکست و ریخت سے دوچار کرکے حق کا بول بالا کرنا اسلام میں محمود اور قابل ستائش ہے، اسی طرح مادّی طاقت کے اعتبار سے باطل کے مقابلہ میں حق کے کمزور ہونے کی صورت میں زبان و بیان کو استعمال کرکے حق بات کو بیان کرنا بھی ایک عمدہ اور پسندیدہ وصف ہے۔

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ٹیسٹ سیریز:جنوبی افریقہ کو پاکستان پر برتری حاصل

پاکستان کرکٹ ٹیم جنوبی افریقہ کے دورے پر ہے، جہاں اس نے پہلے تین ٹی 20 انٹرنیشنلز اور پھر تین ون ڈے انٹرنیشنلز کی سیریز کھیلی جبکہ 26دسمبر سے دو ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز کے پہلے ٹیسٹ کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔

حقیر

چھک، چھک کرتی ٹرین اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ رات کے کوئی بارہ بجے ہوں گے فرقان بیگ کا تکیہ بنائے، چادر اوڑھے، نیم غنودگی کے عالم میں تھا۔

نیا سال آیا

خزانے مُسرت کے برساتا آیا ہر اِک گام اٹھلاتا ، بل کھاتا آیا ستاروں کی تابانیاں ساتھ لایانیا سال آیا نیا سال آیا

ذرامسکرایئے

احمد( احسن سے): ’’ یہ کتاب بہت دلچسپ ہے۔ تم نے کتنے کی لی؟‘‘۔ احسن: ’’ جس وقت میں نے یہ لی تھی، اس وقت دکان دار، دکان پر نہیں تھا‘‘۔ ٭٭٭

جاگو جاگو

جاگو جاگو گڑیا رانی اٹھو اٹھو گڑیا رانی دیکھو دیکھو ہوا سویرا

پہیلیاں

باتوں باتوں میں وہ کھایا کھا کر بھی ثابت ہی پایا (مغز)