کراچی میں پانی کا بحران ،احتجاج اور مقدمے
پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور پی پی رہنما گاہے بگاہے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کررہے ہیں۔ یہ تنقید بظاہر حکومت کی پالیسیوں پر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔
کبھی این ایف سی ایوارڈ تو کبھی انٹرنیٹ کی سست رفتاری کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور اب بلاول بھٹو زرداری نے بھی انٹرنیٹ اور وی پی این پر حکومتی پالیسی کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ جامشورو یونیورسٹی میں کانووکیشن سے خطاب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی ڈیجیٹل بل آف رائٹس لے کر آئے گی اور نوجوان قانون سازی میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے طلبا کو تلقین کی کہ وہ ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کریں۔ادھرگڑھی خدا بخش میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 17ویں برسی کی تیاریاں جاری ہیں۔گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے یہاں کا دورہ کیا، شہدا کے مزاروں پر حاضری دی اور برسی کے انتظامات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے میڈیا سے بھی گفتگو کی اور بتایا کہ صدر مملکت اور بلاول بھٹو بھی برسی میں شرکت کریں گے۔ دونوں رہنما برسی پر کن خیالات کا اظہار کرتے ہیں اس کا سب کو انتظار ہے، یقینی طور پر یہ گفتگو پارٹی کی مستقبل کی پالیسی کا پتا دے گی۔
کراچی کی بات کریں توپیر کے روز وہاں ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ ایک واٹر ہائیڈرینٹ کی جانب سے ٹینکروں سے پانی بہانے والے شہریوں کے خلاف مقدمہ درج کرادیا گیا۔ ہجوم پر کارِ سرکار میں مداخلت، تشدد اور فساد پھیلانے سمیت متعدد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ مقدمے کا پس منظر یہ ہے کہ شہر کو پانی فراہم کرنے والی بڑی پائپ لائن کئی بار پھٹ گئی، جس سے کراچی کے بڑے حصے کو پانی کی فراہمی بند ہوگئی۔ جماعت اسلامی کی جانب سے بھی شہر میں کم از کم 15 مقامات پر احتجاج کیا گیا اورمتعدد سڑکیں بھی بند کردی گئیں، اس دوران سڑک پر موجود پانی بیچنے والے ٹینکر عوام کے ہتھے چڑھ گئے، انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ٹینکروں کا پانی سڑک پر بہا دیا۔ میڈیا کے مطابق واٹر کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے صورتحال کو ناقابلِ قبول قرار دیا اور کہا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے نہیں دیا جائے گا، پانی ضائع کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے۔ ترجمان واٹر کارپوریشن نے عوامی ردعمل کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دیا اور کہا کہ مظاہرہ کرنے والوں کی فوٹیج ریاستی اداروں کو ارسال کردی گئی ہیں تاکہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔
پانی اور گیس کے خلاف عوامی احتجاج ان محرومیوں کو ظاہر کرتا ہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر ، تجارتی حب اور ملکی معیشت کا سب سے بڑا حصہ دار تو ہے مگر اس کے باسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جس ادارے کی ذمہ داری ہے کہ کراچی کے باسیوں کو پانی کی فراہمی یقینی بنائے اس کے چند کردار پانی مافیا کے ذریعے پانی بیچنے میں مصروف ہیں۔ پائپ لائن پھٹ گئی تو متاثرہ علاقوں کو متبادل طریقے سے پانی فراہم کیا جانا چاہیے تھا نہ کہ دھڑادھڑ پانی بیچنا شروع کردیا جاتا۔ ٹینکروں کی قیمت میں بھی اضافہ کردیا گیا۔ بعض علاقوں میں ایک واٹر ٹینکر کی قیمت 25سے 30ہزار روپے تک وصول کی گئی۔افسوس کا مقام ہے کہ عوام کو ان کے حصے کا پانی بیچا جاتا ہے۔پر امن احتجاج عوام کا حق ہے لیکن ان کو بھی چاہئے کہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں نہ لیں۔ ویسے ریاستی اداروں کو فوٹیج فراہم کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا پانی نہ ملنے پر احتجاج بھی دہشت گردی کے زمرے میں آئے گا؟ ڈپٹی میئر سلمان مراد کا حال دیکھیں، کہتے ہیں کہ پانی مہنگا تو نہیں بیچ رہے، ٹینکر کی قیمت مقرر ہے، یعنی حکومتی نااہلی کے باعث پانی سے محروم عوام جھوٹ بول رہے ہیں؟کیا وہ بتانا پسند کریں گے کہ واٹر ہائیڈرینٹ کے لیے پانی کیا آسمان سے اترتا ہے؟ کیا ہر گھر اور شہری تک پانی پہنچانا حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اور انہیں کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں، انہیں پر مقدمات درج کرائے جارہے ہیں اور پھر اسی عوام سے واٹر بل بھرنے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔
دوسری طرف پانی کی عدم فراہمی کے خلاف جماعت اسلامی کے احتجاج پر وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے تنقید کی اور کہا کہ سڑکوں پر احتجاج کرکے ٹریفک کا نظام برباد کردیا اور عوام کے لیے مزید مسائل پیدا کیے گئے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ایم کیو ایم کے رہنما علی خورشیدی نے بھی پانی کی عدم فراہمی کا ذمہ دار پیپلز پارٹی کو قرار دیا، لیکن وہ بھی یہ بتانا بھول گئے کہ کئی دہائیوں تک شہر پر ایم کیو ایم کی حکومت تھی اس وقت پانی کا نظام ٹھیک کیوں نہیں کیا گیا؟ صوبے کے عوام کو کہیں صحت کا مسئلہ درپیش ہے ، کہیں پانی کا تو کسی جگہ آوارہ کتوں کے کاٹے کے مسائل ہیں۔ ایسے میں وزیرصحت عذرا پیچوہو کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ اگر کہیں کتوں کی بہتات ہے تو اس سے نمٹنا یا قابو پانا شہری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ البتہ سرکاری ہسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین وافر تعداد میں دستیاب ہے۔مگر ہم نے تو سنا ہے کہ جانوروں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے کتوں کو تلف کرنے سے منع کردیا گیا ہے، کتوں کے حقوق اپنی جگہ لیکن کیا عوام کے بھی کچھ حقوق ہیں یا پھر یہ کہ کتا کاٹ لے تو ہسپتال جائیں، ویکسین لگوائیں، جان بچائیں، کتوں کو کچھ نہ کہیں۔