خونی سال رخصت ہوا
2024ء بلوچستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عام انتخابات کے بعد 24فروری کو صوبے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے صوبے میں اقتدار سنبھالا۔
اس حکومت کیلئے بھی صوبے میں بیڈ گورننس،کرپشن اور بالخصوص امن و امان کی ابتر صورتحال سب بڑا چیلنج رہا۔ بلوچستان میں رواں سال دہشت گردی کے 563 واقعات میں 296 افراد جاں بحق اور 596 زخمی ہوئے۔ محکمہ داخلہ کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان بھر میں جنوری2024 ء میں پولیس، ایف سی ، پاک فوج ، کوسٹ گارڈز، لیویز ، آبادکار، علما، ریلوے ٹریک، بجلی اور موبائل کمپنیوں کے ٹاور ، گیس پائپ لائن، عام شہری اور پولیو ورکرز پر حملوں کے 54 واقعات ہوئے جن میں 15 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوئے۔ فروری میں 109 واقعات میں 31 افراد جاں بحق اور 126 زخمی ہوئے۔ مارچ میں 26 واقعات میں 11 افراد جاں بحق اور 29 زخمی ہوئے۔ اپریل میں 31 واقعات میں 21 افراد جاں بحق اور 29 زخمی ہوئے۔ مئی میں 17 واقعات میں 14 افراد جاں بحق اور 32 زخمی ہوئے۔ جون میں 37 واقعات میں سات افراد جاں بحق اور21 زخمی ہوئے۔ جولائی میں 30 واقعات میں 11افراد جاں بحق اور 21 زخمی ہوئے۔ اگست میں 78 واقعات میں 88 جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ ستمبر میں 46 واقعات میں 14 افراد جاں بحق اور 52 زخمی ہوئے۔ اکتوبر میں 37 واقعات میں 31 افراد جاں بحق 50 زخمی ہوئے۔ نومبر میں 57 واقعا ت میں47 افراد جاں بحق اور زخمی 80 ہوئے۔جبکہ دسمبر میں 32 واقعات میں 6 افراد جاں بحق 16 زخمی ہوچکے ہیں۔ اس طرح یکم جنوری سے 563 واقعات میں 296 افراد جاں بحق اور 596 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔یہ اعداد و شمار بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور بدامنی کی سنگین صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کراچی میں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور اسلام آباد میں صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں میں وزیراعلیٰ نے پارٹی قیادت کو صوبے میں فلاح و بہبود اور سماجی ترقی کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیا۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے بینظیر بھٹو سکالرشپ پروگرام کے حوالے سے بتایاکہ یہ پروگرام صوبے میں تعلیمی ترقی کا سنگ میل ثابت ہوگا۔ پہلی بار میٹرک کے طلبہ کو سکالرشپ کی فراہمی اور پی ایچ ڈی کے لیے بین الاقوامی جامعات کے دروازے کھولنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نوجوان نسل کیلئے سنجیدہ ہے۔صدر آصف علی زرداری نے اس موقع پر حکومت بلوچستان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے یقین دلایا کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے ہر ممکن تعاون کرے گی۔ صدر مملکت نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے تعلیم، صحت، روزگار اور امن و امان کے شعبوں میں کیے جانے والے اقدامات نے ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ قیادت عوام کی بہبود کو اپنی اولین ترجیح سمجھتی ہے۔ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے رواں ہفتہ گوادر کا دورہ بھی کیا ، جہاں انہوں مختلف عوامی نوعیت کے منصوبوں کا جائزہ لیا۔ شپ بریکنگ یارڈ منصوبے اور غیر قانونی ٹرالنگ جیسے موضوعات پر واضح حکمت عملی حکومت کی دور اندیشی کا ثبوت ہے۔وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ کسی بھی منصوبے پر عمل درآمد سے قبل مقامی نمائندوں اور عوام کو اعتماد میں لینا ضروری اور جمہوری طرزِ عمل کی نمائندگی کرتا ہے۔ شپ بریکنگ یارڈ جیسے بڑے منصوبے کے اثرات صرف معیشت تک محدود نہیں بلکہ اس کے سماجی اور ماحولیاتی پہلو بھی اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی ماہی گیروں کے تحفظات دور کرکے مقامی معیشت کو مضبوط بنانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ اورپیپلز پارٹی کے سینیٹر عبد القدوس بزنجو گزشتہ دنوں کوئٹہ پہنچے جہاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ڈھائی ڈھائی سال کاکوئی حکومتی فارمولا نہیں۔ ان کے مطابق ڈھائی ڈھائی سالہ فارمولہ بلوچستان کے حالات کے موافق نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں موجودہ حکومت گورننس،سیاسی استحکام اور ڈیویلپمنٹ کے ماڈل کو بہتر کررہی ہے ان حالات میں ڈھائی ڈھائی سالہ فارمولے کی باتیں کرکے صوبے میں غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔سینیٹرعبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ وفاق میں پیپلز پارٹی (ن) لیگ کو سپورٹ کررہی ہے صوبے میں وہ پیپلز پارٹی کی اتحادی ہے۔ (ن) لیگ ڈھائی سال بعد اگر بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے پر راضی ہو تو صوبے میں پیپلز پارٹی وزارت اعلیٰ (ن) لیگ کو دینے پرتیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان 20 سالوں سے دہشت گردی کا سامنا کررہا ہے۔ ہماری سیکورٹی، فورسز، لیویز، پولیس اور عام لوگوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ شدت پسندی کا نقصان صوبے کو پہنچا ،بلوچستان ترقی میں پیچھے رہ گیا۔ حالیہ چھ ماہ میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ دشمن طاقتیں نہیں چاہتیں کہ بلوچستان میں ترقی ہو۔ بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے ہی لوگ غیروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ سیکورٹی فورسز اور صوبائی حکومت دہشت گردی پر قابو پانے کی کوششیں کررہی ہیں۔
ادھربلوچستان اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں متعدد اہم معاملات زیر بحث آئے۔ سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں تعیناتیوں کے مسئلے اور احتجاج کو اجاگر کرنا ایک سنجیدہ قدم ہے جس پر حکومت نے کچھ پیشرفت کا دعویٰ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں مسائل کے حل کی کوششیں مثبت اشارہ ہیں لیکن کنٹریکٹ پر بھرتیوں کی پالیسی سے مستقل روزگار کی ضرورت کو نظرانداز کرنا تشویشناک ہے۔ اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے نومنتخب رکن اسمبلی میر علی حسن زہری نے رکنیت کا حلف اٹھا لیا۔اجلاس میں سابق وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کی جانب سے چیک پوسٹوں پر عوامی شکایات اور امن و امان کی خراب صورتحال پر توجہ دلانا حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے حب انڈسٹری میں مقامی افراد کو روزگار کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا۔اجلاس میں متعدد ترمیمی قوانین کی منظوری مثبت پیش رفت ہے لیکن عوام کے بنیادی مسائل جیسے تعلیم، صحت، اور روزگار پر مزید ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے عملی قدم اٹھانا ہو گا تاکہ سیاسی بیانات کے بجائے عملی نتائج نظر آئیں۔ دوسری جانب بلوچستان کے سرکاری ہسپتالوں میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جانب سے 31 روز سے جاری ہڑتال نے صحت کے نظام کو مفلوج کر رکھا ہے۔ حکومت کے فیصلے پر اختلافات نے اس معاملے کو سیاسی، سماجی اور اخلاقی بحران میں بدل دیا ہے اور عوام کو علاج کیلئے مشکلات کا سامنا ہے۔