مغرور اونٹ کی کہانی

تحریر : محمد نورالحسن (بہاولنگر)


کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔ اسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ اس کا جہاں جی چاہتا منہ اْٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ وہ اس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اس کے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔

وہ بہار کا خوش گوار موسم تھا، ہر طرف پھول کھلے ہوئے تھے اور جنگل میں بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ اونٹ سو کر اُٹھا تو اسے بڑی زبردست بھوک محسوس ہوئی۔ وہ منہ اٹھائے چرنے نکل گیا اور اپنی لمبی گردن اٹھا کر درختوں کے پتے ،پھول اور پھل کھاتا رہا۔ اسی دوران اس نے ایک کانٹوں بھرے درخت کی ٹہنی دیکھی تو اسے توڑنے کے لیے اپنی گردن اوپر اٹھائی۔ اس نے اپنے دانت خاردار ٹہنی میں گاڑے ہی تھے کہ اس کی گردن ایک شاخ میں اْلجھ گئی۔ اب تو اونٹ کی ساری شیخی ہوا ہو گئی۔ وہ زور لگا لگا کر جب تھک گیا تو زور زور سے رونے لگا مگر کسی نے اس کی نہ آواز سنی اور نہ ہی مدد کو آیا۔

کچھ دیر بعد جب جنگل کے جانوروں کو اونٹ کی مشکل کا پتہ چلا تو وہ اس کو ہمدردی سے دیکھنے لگے لیکن اس کی مدد پھر بھی نہ کر سکے۔اسی دوران چوہا بھی وہاں پہنچ گیا،اس نے اونٹ کی جو یہ حالت دیکھی تو درخت پر چڑھنا شروع کر دیا۔ جانوروں نے اسے منع کیا مگر چوہے نے کسی کی نہ مانی اور اس شاخ تک جا پہنچا جہاں اونٹ کی گردن پھنسی ہوئی تھی۔ کمزور ہونے کے باوجود اس نے کسی نہ کسی طرح اس شاخ کو کتر کتر کر اونٹ کی گردن آزاد کی تو اونٹ کی جان میں جان آئی۔ اب اونٹ کو معلوم ہو چکا تھا کہ جنگل میں ہر جانور اہم ہے۔اس کا غرور خاک میں مل چکا تھا۔اس نے سب جانوروں سے معافی مانگی اور چوہے کو اپنا پکا دوست بنانے کا اعلان بھی کیا۔ سب جانور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کی طرف چلے گئے۔سچ ہے جو مشکل میں کام آئے وہ دوست ہے۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔