مذاکراتی عمل سے وزیراعظم پر امید کیوں؟

تحریر : سلمان غنی


حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے قومی سیاست میں کسی حد تک ٹھہرائو آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب سیاسی قیادتیں میز پر آ بیٹھیں تو مسائل کے حل کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور سیاسی معاملات آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔

 مذاکراتی عمل کے حوالے سے براہ راست ذمہ داری تو سپیکر سردار ایاز صادق پر ہے اور وہ فریقین کو سنبھالنے اور مسائل کو سلجھانے کا ملکہ بھی رکھتے ہیں ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طویل عرصہ کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کو ’بریک تھرو‘ تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن یہ مذاکرات کس حد تک نتیجہ خیز ہوں گے اس حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ سردار ایاز صادق کی صدارت میں پہلا اجلاس منعقد ہو چکا ہے جس میں اپوزیشن کی کمیٹی میں سے بیرسٹر گوہر ، سلمان اکرم راجہ، وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور حامد خان کی عدم موجودگی کی جو بھی وجوہات ہوں مگر اس سے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوا۔ اس مذاکراتی عمل کا دوسرا اجلاس دو جنوری کو طے پایا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن اس میں اپنے مطالبات پیش کرے گی۔ پہلے اجلاس کے حوالے سے اتنا تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ شروعات تھی لیکن مسائل اتنے گمبھیر ہیں اور بڑا سوال یہ بھی ہے کہ حکومت اپوزیشن کو کیا دینے کی اپوزیشن میں ہے اور خود اپوزیشن کے پاس حکومت کیلئے کیا ہے۔ جہاں تک بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کے دیگر ذمہ داران کی رہائی کا تعلق ہے تو فی الحال یہ ممکن نظر نہیں آ رہی کیونکہ یہ عدالتی معاملات ہیں اور اگر عدالتی عمل کے ذریعے بھی سیاستدانوں کیلئے کوئی ریلیف مقصود ہو تو وہاں پراسیکویشن کے طرز عمل سے عدالتیں بہت کچھ اخذ کر لیتی ہیں۔ فی الحال تو مذاکراتی عمل کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کب تک جاری رہے گا لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہفتوں پر محیط ہو گا۔سیاسی درجہ حرارت میں کمی کا ملکی سیاست میں کس کو فائدہ ہوتا ہے اور کس کو نقصان اس حوالے سے دو آراء ہیں۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ بیرونی محاذ پر یہ تاثر غالب آئے گا کہ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن ایک میز پر بیٹھ کر آپس کے  مسائل پر بات چیت کرتے نظر آ رہے ہیں، جسے سیاست کے حوالے سے اچھا قرار دیا جاتا ہے۔ یہ چہ میگوئیاں عام ہیں کہ سیاسی مذاکراتی عمل کے پس پردہ بھی کچھ چل رہا ہے اور مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ کسی طرح کے بیرونی دبائو سے نمٹنے کیلئے ملک کے اندر اہم ایشوز پر یکسوئی نظر آئے۔ لیکن اس کی ایک سیاسی قیمت بھی ہے جو کسی نہ کسی کو ریلیف کی صورت میں ضرور ملے گی۔ البتہ مذکورہ مذاکراتی عمل کے حوالے سے ایک بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ وقتی طور پر اس کا فائدہ حکومت کو ہوگا کہ حکومت اس دبائو سے نجات حاصل کرلے گی جو اپوزیشن کی جانب سے اس پر تھا۔ اسی وجہ سے وزیراعظم شہبازشریف کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی سے امن اور معاشی استحکام آئے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا ،خلوصِ دل سے بات چیت ہوگی تو اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ وزیراعظم کے اس بیان کو مثبت پیغام قرار دیا جا سکتا ہے اور ویسے بھی اُن کے حوالے سے یہ تاثر عام ہے کہ درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے وہ مخالفین سے بھی مذاکرات کرنے اور انہیں ساتھ لے کر چلنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اب بھی یہ تاثر ہے کہ مذکورہ مذاکراتی عمل کے نتیجہ میں کسی کی ذات کو ریلیف ملے نہ ملے لیکن سیاسی محاذ پر ڈیڈلاک ضرور ختم ہوگا۔ 

پی ٹی آئی کی معتدل لیڈر شپ ، جن میں بیرسٹر گوہر ، اسد قیصر اور سلمان اکرم راجہ شامل ہیں، نے بھی جماعت کے اندر اور باہر سے دبائو قبول کرتے ہوئے ڈائیلاگ کی بات کی اور اس میں پیش رفت میں اپنا کردار ادا کیا ۔جہاں نومبر میں تلخیاں عروج پر تھیں اور سیاسی محاذ پر احتجاج اور ٹکرائو غالب تھا وہاں دسمبر جیسا مہینہ جسے پاکستان کی تاریخ میں بعض سانحات کے حوالے سے اچھا قرار نہیں دیا جاتا ، میں سیاسی قوتوں کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی قیادت نے تاریخ سے سبق حاصل کیا ہے، اپنے طرز عمل پر نظرثانی کی ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر باہمی، قومی اور عوامی مسائل پر بات چیت پر آمادہ نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اسے اہم قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن فریقین کوخبردار رہنا ہوگا بعض کو یہ عمل ہضم نہیں ہو رہا اور انہیں سیاسی لیڈر شپ کا مل بیٹھنا ایک نظر نہیں بھا رہا۔

پنجاب کے سیاسی محاذ پر پیپلزپارٹی کے حکومت پنجاب سے تحفظات کا سلسلہ موجودہ حکومت کے قیام کے وقت سے جاری ہے اور پیپلزپارٹی اپنی محدود پارلیمانی قوت کے ساتھ حکومت میں خصوصاً جنوبی پنجاب کی سطح پر بعض اختیارات چاہتی ہے۔ خصوصاً ٹرانسفر پوسٹنگز اور ترقیاتی عمل میں ہر رکن اسمبلی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی سفارش سے ہو۔ تاہم پنجاب میں وزیراعلیٰ مریم نواز کے دور میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اضلاع میں انتظامی افسران کی تقرری خصوصاً اپنے ایس ایچ ایچ او کے چنائو کے حوالے سے تو خود مسلم لیگ (ن) کے اراکینِ اسمبلی کا عمل ختم نہیں تو بہت محدود ضرور کر دیا گیا ہے، لہٰذا جہاں حکومتی اراکین بے بس ہوں وہاں پیپلزپارٹی کے اراکین کا کیا کردار ہوگا۔البتہ ترقیاتی عمل میں پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی کو اسی طرح اکاموڈیٹ کیا جا رہا ہے جس طرح سے( ن) لیگ کے اراکین اسمبلی کو کیا جاتا ہے۔ گورنر ہائوس میں پاور شیئرنگ کے حوالے سے منعقدہ کمیٹی کے اجلاس بارے اطلاعات یہ ہیں کہ اس میٹنگ میں (ن) لیگ نے پیپلزپارٹی سے تحفظات دور کرنے کیلئے وقت مانگا اور اس حوالے سے خیر سگالی کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا اور طے پایا کہ خیر سگالی کمیٹی مستقل میں کسی بھی ایشو پر شکایت کے ازالہ میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ اجلاس کے حوالے سے خبر ہے کہ اس میں پیپلزپارٹی کے اراکین کے حوالے سے کہا گیا کہ ان کا لہجہ اپنی شکایات کے حوالے سے تلخ تھا اور خصوصاً گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے اپنے تحفظات ظاہر کئے جس پر طے پایا کہ گورنر سردار سلیم حیدر اور وزیراعلیٰ مریم نواز کے درمیان ریلیشن شپ کی بحالی اور تعلقاتِ کار میں بہتری کیلئے (ن) لیگ کے ذمہ داران کردار ادا کریں گے اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور گورنر سردار  سلیم حیدر پنجاب کے حوالے سے اقتدار میں شراکت کے فارمولا پر عمل درآمد کی نگرانی کریں گے۔ اسحاق ڈار کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جس کمیٹی میں ہوں وہاں معاملات میں پیش رفت ہوتی ہے، لیکن اس سیاسی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مرکز ہو یا پنجاب ،پیپلزپارٹی کی شکایات اور تحفظات کا مکمل ازالہ ممکن نہیں اور( ن) لیگ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اتحادیوں کو اکاموڈیٹ کرنے کیلئے جو کرنا چاہتی ہے اسے بھی اس کا اتنا اختیار حاصل نہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مغربی قوتیں اور پاکستانی سیاسست

نئی امریکی انتظامیہ اور اس کے عہدیداروں کے پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔

کراچی میں پانی کا بحران ،احتجاج اور مقدمے

پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور پی پی رہنما گاہے بگاہے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کررہے ہیں۔ یہ تنقید بظاہر حکومت کی پالیسیوں پر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔

دیر آیددرست آید

پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے جس کا پہلا دور پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ مذاکرات دو جنوری کو ہونے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ شروع تو ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالاجاسکتا ہے۔

خونی سال رخصت ہوا

2024ء بلوچستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عام انتخابات کے بعد 24فروری کو صوبے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے صوبے میں اقتدار سنبھالا۔

سیاسی بحران ٹل گیا

آزاد جموں و کشمیر میں تین ہفتوں سے جاری سیاسی بحران بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مداخلت سے دونوں جماعتوں نے چوہدری انوار الحق کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یوم وفات ابوبکر صدیق ؓ، صدیق ؓکیلئے ہے خدا کا رسول ﷺ بس

آپؓ نے پوری زندگی میں کوئی ایسا فعل نہیں کیا جو نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہو