سوء ادب
اپنی ایک پنجابی نظم کے ایک شعر سے آغاز کرتا ہوں ۔ اکھ مار کے چرھی وچ وڑ گئی ایڈا کی جروری کم سی
ادب لطیف
یہ 1935ء سے باقاعد گی سے شائع ہونے والا ادبی جریدہ ہے۔ جس کے بانی برکت علی چوہدری،بیاد افتخار علی چوہدری، صدیقہ بیگم، مُدیر و نائب مُدیر مظہر سلیم مجوکہ و شہزاد نیّر ہیں۔
موجودہ شُمارہ اگست 1924کا ہے۔ نعت سلام اور غزل لکھنے والوں میںشہزاد نیّر ،جلیل عالی ،نسیم سحر ،اقتدار جاوید ،صابر ظفر ،نصیر احمد ناصر ،سیّد معراج جامی ،عباس رضوی، شاہین، گلزار بخاری ،اشرف جاوید ،محمد نعیم طاہر، مسعود احمد،جان کاشمیری ،رفیق سندیلوی، طارق نعیم و دیگران۔ افسانہ نگار وں میں محمود احمد قاضی،محمد الیاس و دیگران جبکہ مضمون نگاروں میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ،ڈاکٹر شاہین مفتی و دیگران ،صلاح الدین حیدر، وحید احمد ،سیّد افسر ساجد ،ڈاکٹر ارشد رضوی، شائستہ مفتی،پروین سجل، ڈاکٹر انعام الحق جاوید و دیگران شامل ہیں۔
اور اب اسی شمارہ میں شائع ہونے والی عباس رضوی کی یہ غزل ۔۔۔۔۔
گُھتّر
پتا ہی نئیں سو لگن دتا
کپڑیاں اندر وڑی ہوئی
کوئی گُھتّر سی
ساریاں لاہماں اوس دیاں سن
پُورب سی کِتے پچھم سی
کِتے دکھن سی کِتے اُتر سی
مطلب دی کوئی گل کرو تے
ٹھاہ ٹھاہ کر کے ہس چھڈ دی
کوئی ایڈی سُور دی پُتر سی
غزل
لرزتے ہیں زمین و آسماں کچھ ہونے والا ہے
جہاں ہم آن پہنچے ہیں وہاں کچھ ہونے والا ہے
خبردی ہے دھڑ کتے دل نے نا ہموار سا نسوں نے
ہمارے او ر تمہارے درمیاں کچھ ہونے والا ہے
اُبھرتی ڈولتی موجوں پہ رقصاں ہے کوئی کشتی
ہوائے تند ہے اور بادباں ،کچھ ہونے والا ہے
یہ مہر و ماہ یہ سیار گانِ مضطر ب آخر
اب اِس منزل پہ آپہنچے جہاںکچھ ہونے والا ہے
کہیں افلاک پر ہونے کو ہے پھر فیصلہ کوئی
فضا کہتی ہے زیر آسماں کچھ ہونے والا ہے
کوئی نوزائید ہ تار اخلا میں اب نہیں ہوتا
سکڑتی جار ہی ہے کہکشاں کچھ ہونے والا ہے
سگانِ راہ جب خاموش ہوں اور پیڑ ساکت ہوں
تو یہ سمجھو نصیب وشمنان کچھ ہونے والا ہے
آج کا مطلع
چار سُو پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا
اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا