سیاسی مذاکرات،پس منظر میں کیا چل رہا ہے ؟
بانی پی ٹی آئی کی جانب سے سول نافرمانی کی کال سے پسپائی ظاہر کرتی ہے کہ پی ٹی آئی اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ سیاست میں احتجاج اور جارحانہ طرزِ عمل کچھ وقت تک تو مؤثر ہوتا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں نہ تو حکومتیں گرائی جا سکتی ہیں اور نہ ہی انہیں سرنڈر پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
سیاسی محاذ پر مذاکراتی عمل کے نتیجہ میں کسی حد تک درجہ حرارت میں کمی آئی ہے اور فریقین کی جانب سے ڈائیلاگ کی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پس منظر میں کچھ چل رہا ہے اور کسی نہ کسی سطح پر اس بات کا ادراک موجود ہے کہ ملک کو آگے لے جانا ہے تو معاشی استحکام ناگزیر ہے اور معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ نومبر کے آخری ہفتہ میں پی ٹی آئی کی جانب سے ’’فائنل کال‘‘ اور اس کے نتیجہ میں پیدا شدہ صورتحال کے بعد یہ امکان نہیں تھا کہ یکدم پی ٹی آئی اپنے مؤقف سے یو ٹرن لے کر مذاکرات اور پھر غیر مشروط مذاکرات کی بات کرے گی۔ پی ٹی آئی کی یہ ’’فائنل کال‘‘ جہاں اس کیلئے آخری کال ثابت ہوئی تو دوسری جانب آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کے خلاف فردِ جرم میں نو مئی کے واقعہ کی پلاننگ کے ذکر نے بھی پی ٹی آئی اور اس کے بانی کے آگے بڑا سوال کھڑا کر دیا۔دوسری جانب عدالتی محاذ پر 190ملین پونڈ کے کیس کی نتیجہ خیزی بھی سر پر تھی۔ ایک تاثر یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنی ’’فائنل کال‘‘ کی ناکامی کے بعد پسپائی کیلئے اس لئے تیار ہوئی کہ آگے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، لیکن پی ٹی آئی کی لیڈر شپ نے خود کو اس نفسیاتی کیفیت سے نکالنے کیلئے سول نافرمانی کی کال دے کر نئی صورتحال اختیار کرنا چاہی لیکن پارٹی کے لیڈر بیرسٹر گوہر، اسد قیصر اور دیگر ذمہ داران کی جانب سے مذاکرات کی تکرار اور اصرار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کا معتدل گروپ سول نافرمانی تک نوبت لے جانا نہیں چاہتا۔ اسی بنیاد پر انہوں نے مذاکرات کی پیشکش کی۔ شروع میں تو حکومتی ذمہ داران نے اس پیشکش کو ان کی بڑی ناکامی سے تعبیر کرتے ہوئے اسے سنجیدہ لینے سے گریز کیا لیکن بعد ازاں مسلم لیگ (ن )کے صوبائی صدر اور وزیر اعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ خان کی جانب سے مذاکرات کی اس پیشکش کا خیر مقدم کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ یہ صرف مطالبات تک نہیں بلکہ ڈائیلاگ تک وسیع تر ہونا چاہیے۔ انہوں نے اوروزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے فلور پر پی ٹی آئی کے رکن شیر افضل مروت کی مفاہمانہ تقریر کے جواب میں مثبت جواب دیا۔
مذاکرات کی بات کو سیاسی حلقوں میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر لیا جا رہا ہے۔تاہم حکومت کا مؤقف تھا کہ ایک طرف سول نافرمانی کی دھمکی اور دوسری طرف مذاکرات میں کھلا تضاد ہے۔تاہم ایک طرف جہاں قومی اسمبلی کے فلور پر فریقین مذاکرات کی ضرورت اور اہمیت کو واضح کررہے ہیں تو دوسری جانب بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان صاحبہ نے خان صاحب سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کی کال کچھ روز کیلئے مؤخر کر دی ہے۔ انہوں نے بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے کہا کہ اگر ان کے دو مطالبات نہ مانے گئے تو ترسیلاتِ زر روکنے کی کال دوبارہ دی جائے گی۔ علیمہ خان کا کہنا تھا کہ جماعت کے ذمہ داران نے بانی پی ٹی آئی سے کہا تھا کہ ترسیلات زر روکنے سے ملک کو نقصان ہوگا اس لئے اس کال پر کچھ روز رُک جائیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت مذاکرات میں سنجیدہ ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا مذاکرات میں پیشرفت ہو پائے گی؟ بنیادی مسئلہ حکومت، اپوزیشن اور مقتدرہ میں بداعتمادی کا ہے۔ یہ معاملہ اگر سیاسی نوعیت کا ہوتا تو حل نکل آتا، لیکن جب مسئلہ ضد اور ہٹ دھرمی تک پہنچ جائے تو اس کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ بنیادی طور پر بداعتمادی کے ماحول میں اگر مفاہمت کو آگے بڑھنا ہے تو مؤقف میں لچک پیدا کرنا ہوگی اور ایک دوسرے کیلئے اچھے جذبات کا اظہار کرنا ہوگا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کی بات اور اس کیلئے کمیٹی کا قیام خوش آئند ہے اور وہ جو پہلے مقتدرہ کے علاوہ کسی سے بات کرنے کو تیار نہ تھے اب حکومت سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ مطلب یہ کہ پی ٹی آئی نے اپنے مؤقف پر نظر ثانی کی ہے۔ ایک وقت میں وہ حکومت کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری تھی اور کہا جاتا تھا کہ ان کے پاس مذاکرات کا اختیار ہی نہیں مگر اب ان کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے مؤقف سے پسپائی کی ہے۔ اب گیند حکومت کی کورٹ میں ہے۔ حکومت کو فیصلہ کرنا ہے کہ اگر وہ واقعتاً معاشی استحکام چاہتی ہے تو اسے سیاسی استحکام کیلئے آگے بڑھنا ہوگا، لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ مسئلہ صرف اپوزیشن سے مذاکرات کا نہیں مقتدرہ کا بھی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ حکومت کو مذاکراتی عمل میں مقتدرہ کی حمایت حاصل ہوگی؟ ایسا نہ ہوا تو مذاکرات کا کوئی مستقل نہیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اپنے ایک ہفتہ کے دورۂ چین کے بعد واپس آ چکی ہیں۔ ان کے دورۂ چین کی اہمیت یہ ہے کہ اس دورے کے دوران وزیر اعلیٰ نے چینی حکومت کے ذمہ داران اور مختلف شعبوں کے وزرا سے ملاقاتیں کیں اور مختلف چینی کمپنیوں اور ان کے اہم مقامات اور مختلف وزارتی مراکز کا دورہ کیا اور انہیں پنجاب میں سرمایہ کاری کے امکانات سے آگاہ کرتے ہوئے یہاں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ چینی حکومت کے ذمہ داران سے اپنی ملاقاتوں میں انہیں چین کے حوالے سے پاکستانی عوام کے جذبات اور احساسات سے بھی آگاہ کیا اورپاکستان کی معاشی ترقی میں چین کے کردار کی تعریف کی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے اپنے دورۂ چین کے دوران چینی کمپنیوں کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی ، ماحولیات گرین انرجی اور کینسر کے علاج سمیت متعدد منصوبوں کے معاہدے کئے جبکہ پانچ کروڑ ڈالرز کے سرمایہ کاری فنڈز کا بھی اعلان کیا۔ پنجاب سرمایہ کاری کانفرنس کے اعلان کے مطابق پنجاب حکومت اور چینی کاروباری اداروں کے درمیان پائیدار اور طویل مدتی شراکت داری کو فروغ دینے کے مختلف معاہدوں پر دستخط ہوئے جس کے تحت چینی سرمایہ کار پنجاب میں سرمایہ کاری کریں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا دورہ دو طرفہ تعلقات اور سرمایہ کاری کے حوالے سے اہم ہے اور اس کے اچھے ثمرات سامنے آئیں گے لیکن وزیراعلیٰ مریم نواز کو چاہیے کہ اس دورے میں چین سے طے پانے والے معاملات اور معاہدوں کی مانیٹرنگ خود کریں، اس لئے کہ ہمارے ہاں ان پر پیش رفت کے حوالے سے مطلوبہ اہلیت موجود نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کے مذکورہ دورے کی نتیجہ خیزی پنجاب میں نظر آئے اور پتہ چلنا چاہئے کہ یہ دورہ اپنے مقاصد اور نتائج کے حوالے سے کتنا اہم ہے۔