سول نافرمانی کے نتائج اور عواقب
بانی پی ٹی آئی کے سول نافرمانی کے اعلان سے پی ٹی آئی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔پارٹی اس تذبذب کی کیفیت میں ہے کہ سول نافرمانی کیسے کی جائے اور یہ کہ عام آدمی اس کیلئے ساتھ دے گا؟یہ وہ سوال ہیں جن کا پارٹی قیادت کے پاس کوئی جواب نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ پریشانی ہے کہ اس سے مقتدرہ کے ساتھ دوریاں مزید بڑھ جائیں گی۔
پی ٹی آئی کے طرزِ سیاست پر نظرڈالی جائے تو اس کی کامیابی کا راز مزاحمتی سیاست میں ملتا ہے لیکن یہ مزاحمتی سیاست اسی وقت تک کامیاب ہے جب آئین وقانون کے دائرے میں ہو۔ جلسے ،جلوس اور مظاہروں کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن جب بات سول نافرمانی پر آجائے تو معاملات سنگین ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ ریڈ لائن ہے جس کے ایک طرف ملکی مفادتو دوسری طرف ذاتی مفاد ہے۔معمولی غلطی کے بھی خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں۔ نواز شریف کے دورِ حکومت میں بھی بانی پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کا اعلان کیاتھا،جب کنٹینر پر کھڑے ہوکر بجلی اور گیس کے بل جلائے گئے ، لیکن اُس وقت بھی سول نافرمانی کی تحریک ناکام ہوئی اور اب بھی اس کی کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ بانی پی ٹی آئی خود جیل میں ہیں اور پارٹی قیادت اتنے بڑے چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کوتیار نہیں اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے اس اعلان کو ایک سیاسی داؤ کے طورپر تو لیاجاسکتا ہے لیکن اس پر سنجیدگی سے عملدرآمد انتہائی مشکل ہے۔ ایسے وقت میں جب لوگ پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہیں وہ ایسی کسی بھی مہم کا حصہ بننے سے انکاری ہیں۔ یوں ایسی کسی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنا پی ٹی آئی کی قیادت کیلئے ناممکن حد تک مشکل ہوگا۔عوام ایسی کسی بھی مہم جوئی کیلئے راضی نہیں ہوں گے۔ بل اگرابھی ادانہیں کئے جاتے توایک یا دو ماہ بعد جرمانے سمیت دیناپڑیں گے، اور اس دورمیں کوئی شخص بجلی اور گیس کے میٹر کٹوانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی اپنے گھروں کو پیسے بھیجنا بند نہیں کرسکتے۔ پی ٹی آئی ماضی میں بھی دعوے کرتی رہی ہے کہ اس کی اپیل پر بیرون ملک سے پاکستانی اربوں روپے بھیجیں گے یاپھر اس کے کہنے پر بند کردیں گے لیکن ماضی کے تجربات کو مدنظررکھتے ہوئے اس بات کا امکان نظر نہیں آتا۔بیرون ملک پاکستانی اگر زرمبادلہ نہیں بھیجتے تو اس سے خزانے کو تو نقصان پہنچے گا ہی ساتھ میں جن لوگوں کو یہ پیسے بھیجے جاتے ہیں وہ بھی شدید متاثر ہوں گے۔ غالب امکان ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ذہن میں بھی یہی نکات ہوں؛چنانچہ بظاہر آسان نظرآنے والی یہ مہم جوئی اسلام آباد پر چڑھائی سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ اسی لئے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کہتے ہیں کہ سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان اگرکربھی دیاگیاتو اسے مرحلہ وار کیاجائے گا۔ پہلے مرحلے میں بیرون ملک پاکستانیوں سے ترسیلاتِ زر نہ بھیجنے کی اپیل کی جائے گی، دوسرے مرحلے میں گیس اور بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کی طرف جایاجائے گا۔وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپورسول نافرمانی کے اعلان سے زیادہ خوش نظرنہیں آتے۔ اگرچہ ان کی جانب سے اعلان کیاگیاہے کہ بانی پی ٹی آئی جس دن سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کریں گے اسی دن اس پرعملدرآمد شروع کر دیاجائے گالیکن ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے ایسا کوئی بھی فیصلہ ان کیلئے آئینی اور قانونی طورپر آسان نہ ہوگا۔اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ وزیراعلیٰ علی امین بذات خود ایسی کسی تحریک کا حصہ نہ بنیں کیونکہ حکومتی سطح پر ایسی کسی بھی تحریک کے شروع کئے جانے کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی نہیں چاہے گی کہ ایک بارپھر اپنے ہی ہاتھوں سے خیبرپختونخوا کی اپنی حکومت ختم کردے۔ مقتدرہ کی جانب سے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو کافی رعایت مل رہی ہے۔ اس صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے اور یہاں وہ ہر قسم کا جلسہ ،جلوس یا احتجاج کرسکتے ہیں لیکن سول نافرمانی جیسی تحریک یہاں نہیں چلائی جاسکتی۔ ایسی کسی بھی تحریک کے نتائج اور عواقب سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اچھی طرح آگاہ ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملنے کی کوشش کی لیکن مبینہ طورپر ان کوجیل انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ مل سکی۔ حیرت انگیز طورپر پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں سے ہی یہ بات پھیلائی گئی کہ بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈاپور سے ملنے سے انکار کردیا۔ حالیہ چند ہفتوں میں جہاں پی ٹی آئی کا انحصار علی امین گنڈاپور پر بڑھا ہے وہیں اندرونی طورپر ان کی مخالفت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فی الوقت دیکھاجائے تو پارٹی پر کنٹرول علی امین گنڈاپور ہی کا نظرآرہا ہے۔ ڈی چوک احتجاج کے بعد بشریٰ بی بی ایک بارپھر پس منظر میں ہیں،فیصلے علی امین گنڈاپور ہی کر رہے ہیں۔ کارکنوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے بھی علی امین گنڈاپور بھرپور کوشش کررہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود وہ بیشتر ارکانِ اسمبلی کا اعتماد جیتنے میں کامیاب نظرنہیں آتے۔ان کے حوالے سے پارٹی کے اندر اب بھی شکوک وشبہات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقتاً فوقتاًر پارٹی کے اندر سے ان کے خلاف کوئی نہ کوئی الزام سامنے آجاتا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پر صوبے کو توجہ دینے کے حوالے سے بھی دباؤ بڑھتاجارہا ہے۔ اسلام آباد پر چڑھائی کے دوران ضلع کرم میں جو حالات تھے اس کی بنیاد پر بھی ان پر تنقید کی جارہی ہے۔ اب معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ صوبائی حکومت بھرپور کوششوں کے باوجود فریقین کو ایک میز پر بٹھانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ضلع کرم میں ان حالات میں آپریشن شروع کرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں ،تاکہ مسلح افرادکوغیرمسلح کیاجاسکے اور ان مورچوں کو مسمار کیاجاسکے جہاں سے متحارب قبائل ایک دوسرے پر گولہ باری کرتے ہیں۔صوبائی حکومت نے اگربروقت قدم اٹھایاہوتا تو شاید معاملات اس حد تک نہ پہنچتے۔
دوسری جانب سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک بھی دوبارہ سیاست میں متحرک ہونے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ ان کی مختلف جماعتوں کی مرکزی قیادت سے ملاقاتوں کا سلسلہ جار ی ہے۔ذرائع کے مطابق ابھی تک کسی بھی جماعت کے ساتھ پرویزخٹک کی بیل منڈھے پر نہیں چڑھ سکی ہے ،پرویزخٹک کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کیلئے کوشاں ہیں تاہم اس کے باوجود سیاست کے جوڑ توڑ کے اس ماہر کے متحرک ہونے سے کئی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی نیندیں اُڑ چکی ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ کون سی سیاسی جماعت پرویزخٹک کی سیاست کو زندہ رکھنے میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی صورت میں امیر مقام کی پارٹی میں حیثیت کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ( ن) لیگ میں پرویزخٹک کو سندِ قبولیت مل جائے اور اگر مل بھی گئی تو اس سے (ن) لیگ بہتر ہونے کے بجائے اس صوبے میں مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی۔