دادا جان اور تیمور کا پاکستان

تحریر : طوبیٰ سعید


دادا جان دادا جان! کیا ہوا !آج آپ بہت چُپ چُپ ہیں؟کچھ نہیں میرے بیٹے، بس ایسے ہی دل بہت اُداس ہے۔ کیوں دادا جان ؟ تیمورنے پیار سے اپنے دادا جان کے سر اور گال پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔دادا جان !تیمور کے سر اور گال پہ پیار سے ہاتھ پھیرنے پر اپنا ضبط کھو بیٹھے اور رونے لگے ۔ دادا جان کو ر وتا دیکھ کرتیموریکدَم پریشان ہوگیا۔

 رات کوعشاء کی نماز کے بعد دادا جان اپنے کمرے میں بیٹھے تھے ،تیمور خاموشی سے ان کے کمرے میں داخل ہوااور ایک طرف بیٹھ گیا۔ دادا جان تیمور کی جانب دیکھ کر مُسکرائے اور اپنے پاس آنے کا ا شارہ کیا۔ تیمور پاس آیا تو دادا جان نے اسے اپنی گود میں بٹھالیا۔ تیموربولا دادا جان آپ کیوں رو پڑے آج؟ ۔

 دادا جان نے تیمور کے ماتھے پہ بوسہ دیا اورکہا ’’میرے بیٹے ! جب بھی دسمبر آتا ہے۔ تو دل بہت زیادہ اُداس و پریشان ہوجاتا ہے۔دل چاہتا ہے کہ و قت کسی طرح واپسی کی جانب مڑ جائے اور سب کچھ اچھا ہوجائے۔

آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں ؟تیمور نے پوچھا تو دادا جان بولے، دیکھو بیٹا تیمور! میں تمھیں آج کے دن پیش آنے والے دو دلخراش واقعات کے بارے میں بتاتا ہوں ۔بیٹا 16 دسمبر کا دن پوری پاکستانی قوم کیلئے غم سے بھرپور ہے۔ اس دن دو بڑے سانحات ہوئے۔

دادا نے کہا 1971ء میں 16 دسمبر کو ہمارا پیارا ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ ہمارا ملک پاکستان دو حصوں مشرقی اور مغربی پاکستان پر مشتمل تھا۔ مشرقی پاکستان ہماری اپنی نااتفاقیوں اور ہندوستان کی دخل اندازی کے باعث ہم سے کٹ گیا۔ ہندوستان نے اپنے مکتی بانی کارکنوں کے ذریعے وہاں کے لوگوں کے دلوں میں ہمارے لیے زہر گھولا۔ انھوں نے ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا ۔مشرقی پاکستان کا ہمارے ساتھ زبان کا بھی مسئلہ تھا۔ اس کے علاوہ فاصلہ بہت تھا۔ وہاں کے محبِ وطن ہمارے ساتھ مل کر رہناچاہتے تھے مگر ہندوئوں نے ان  کے دلوں میں پاکستان کیلئے نفرت بھر دی کیونکہ ہندوئوں کو پاکستان کی آزادی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔انھوں نے اپنے مضموم ارادوں کے ذریعے پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا۔ وہاں رہنے والے ہمارے بہن بھائی ہم سے جُدا ہو گئے۔ وہاں کے سیاسی رہنمائوں نے بھی ہندوستانیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ 

 1971ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہمارا آپس میں اتفاق و اتحاد کا نہ ہونا تھا اور آج بھی ہم ناتفاقی کا شکار ہیں۔ 

تیمور نے کہا : اوہو!دادا جان !یہ تو بہت غلط ہوا، ہمیں مل جل کر رہنا چاہیے تھا۔بالکل بیٹا ،ہم نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔کس طرح مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے وجود میں آیا۔ بہت تکلیف دہ وقت تھا، ہمارے لیے۔ 

دادا جان! د وسرا سانحہ کونسا ہوا؟تیمور نے پوچھا۔دادا بولے میرے بیٹے! دوسرا سانحہ  2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں اور اساتذہ کرام کا قتل عام تھا۔ قوم کے معما ر وں کو شہید کرکے پوری قوم کو دائمی کرب میں مبتلا کردیاگیا۔

دادا جان! یہ تو بہت بری بات ہے، تیمور سانحہ  آرمی پبلک سکول کاسن کر خوفزدہ ہوگیا۔تودادا جان نے کہا ’’ تم پریشان نہ ہونا اور نہ کبھی ڈرنا، یہ محض ہمیں توڑنے اور اندر سے کھوکھلا کردینے کی سازش تھی۔لیکن افسوس کہ آج تک پوری قوم  ان سانحات کے ہوجانے کے باوجود بھی اس طرح سے نہیں سمجھتی، جس طرح سے سمجھنا چاہیے۔ہماری بیشترنوجوان نسل اب بھی قا ئد کے فرمان ایمان ، اتحاد اور تنظیم کے اصول کو نہیں سمجھتی اور نہ اس پر عمل پیرا ہوتی ہے۔ نوجوان نسل اغیار کے ہاتھوں کھلونا بن چکی ہے ۔سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال اور بیشتر غلط استعمال کے ذریعے بے راہ روی کا شکار ہوچکی ہے۔پاکستان کیوں معرضِ وجود میں آیا، اس کے اغراض و مقاصد کیا تھے؟ ہم اس کے حقیقی فلسفے سے دور ہو گئے ہیں۔ ہم اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پہ ترجیح دیتے ہیں۔نفسا نفسی کا عالم ہے۔ہر طرح کی غلط عادات اس قوم میں شمار ہوتی ہیں، جو کہ ہمارے لیے شدید تشویش کا باعث ہیں۔

دادا جان نے کہا کہ میرے بیٹے ! ان سب کے باوجود ، حالات چاہے، جیسے بھی ہوں ، قوم کی زندگیوں میں حادثات و سانحات ہوجاتے ہیں، مگر ہمیں ہر صورت اس قوم کو بہتر بنیادوں پہ استوار کرنے کیلئے اپنااپنا کردار ہر صورت ادا کرتے رہنا چاہیے۔

تم بڑے ہوکر آرمی میں جانا چاہتے ہو یا کسی بھی فیلڈ میں۔اپناکردار پوری ایمانداری سے ادا کرنا ، تم قوم کے معمار ہو۔ پاکستان کو ہر صورت بہترین بنیادوں پہ استوار کرنے کیلئے ہم سب کو ہمہ تن گوشہ رہناچاہیے۔میرے بیٹے ! کم کھا لینا ، کم کما لینا، مگر جھوٹ اور بددیانتی کو کبھی اپنے فرائض کی راہ میں حائل نہ ہونے دینا۔پوری ایمانداری اور سچائی کے ساتھ آگے بڑھنا۔اور دل لگا کر بغیر کسی خوف کے تعلیم حاصل کرنا۔   

تیمور دادا جان کی باتوں کو غور سے سُن رہا تھا۔ وہ اچانک بولا، دادا جان آپ جیسا کہیں گے، میں ویسا ہی کروں گا،آپ کی ہر بات پر عمل کروں گا۔دل لگا کر پڑھوں گا اورپاکستان کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار پوری ایمانداری سے ادا کروں گا۔میںبڑا ہوکر فوجی بنوں گا اور دشمنانِ پاکستان کو نیست و نابود کر دوں گا۔ اِن شاء اللہ۔

بیشک میرے بیٹے بیشک۔ دادا جان کی باتیں سن کر تیمور نے بآوازبلند نعرہ لگایا!پاکستان زندہ باد۔دادا جان تیمور کا حوصلہ و عزم دیکھ کر بے حد خوش اور پُر امید ہوئے کہ ہماری نسل میں اب بھی ایسے افراد موجود ہیں ، جو اس ملک کی بہتری کا سوچتے ہیں۔

پیارے بچو! دسمبر میں یہ واقعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ کس طرح عظیم قوموں کی زندگی میں حادثات رونما ہوتے ہیں اور ہمیں کس طرح سے خود کو جذبہ حب الوطنی سے سرشار رکھنا چاہیے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

معاشی میدان سے اچھی خبریں!

ملکی سیاسی میدان میں غیریقینی کی صورتحال برقرار ہے مگر معاشی میدان سے اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ دو سال قبل جس ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جا رہی تھیںوہ ملک اب نہ صرف دیوالیہ پن کے خطرے سے نکل آیا ہے بلکہ مثبت معاشی اشاریوں نے امید کی کرن بھی پیدا کردی ہے۔

سیاسی مذاکرات،پس منظر میں کیا چل رہا ہے ؟

بانی پی ٹی آئی کی جانب سے سول نافرمانی کی کال سے پسپائی ظاہر کرتی ہے کہ پی ٹی آئی اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ سیاست میں احتجاج اور جارحانہ طرزِ عمل کچھ وقت تک تو مؤثر ہوتا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں نہ تو حکومتیں گرائی جا سکتی ہیں اور نہ ہی انہیں سرنڈر پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

گورنر سندھ کا معاملہ اور واوڈا کی پیشگوئیاں

سندھ کی سیاست میں ایک بار پھر گورنر کی تبدیلی کا غلغلہ ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے گزشتہ دنوں گورنر کی تبدیلی کا عندیہ دیا تھا، ساتھ ہی یہ بھی بولے کہ تبدیلی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

سول نافرمانی کے نتائج اور عواقب

بانی پی ٹی آئی کے سول نافرمانی کے اعلان سے پی ٹی آئی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔پارٹی اس تذبذب کی کیفیت میں ہے کہ سول نافرمانی کیسے کی جائے اور یہ کہ عام آدمی اس کیلئے ساتھ دے گا؟یہ وہ سوال ہیں جن کا پارٹی قیادت کے پاس کوئی جواب نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ پریشانی ہے کہ اس سے مقتدرہ کے ساتھ دوریاں مزید بڑھ جائیں گی۔

سیاسی استحکام اور عوامی مسائل کی گونج

بلوچستان میں معاشی اور سیاسی پیش رفت کے تناظر میں ترقی کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی، سرحدی تجارت کی بحالی اور معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کی حکومتی منصوبہ بندی اہم اقدامات ہیں۔ دوسری جانب گورنر جعفر خان مندوخیل اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بیانات نے پالیسی سازی میں شفافیت اور عوامی شمولیت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ایوان میں تبدیلی کی سرگوشیاں

آزاد جموں و کشمیر میں سردی ان دنوں زوروں پر ہے مگر ریاست کا سیاسی درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ قانون ساز اسمبلی میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف خواجہ فاروق احمد وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی ممکنہ تبدیلی کی مبینہ کوششوں کے درمیان پشاور پہنچ گئے جہاں انہوں نے وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈا پور سے ملاقات کی اور جماعت کی آزاد کشمیر شاخ کی پالیسی کے حوالے سے مشاورت کی۔