برائیوں سے پاک معاشرہ کی تشکیل
عدل و انصاف، امن و امان اور تعمیر وترقی عوام کی خوشحالی کے ضامن
اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں حضور خاتم النبیینﷺکی ذات پر، جنہوں نے زندگی گزارنے کے بہترین طریقے سکھلائے اور ان باتوں کی نشاندہی فرما دی جن سے نقصان اور خسارہ ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے اچھے اور بہتر لوگ تمہارے حاکم ہوں، تمہارے مالدار لوگ سخی ہوں اور تمہارے باہمی معاملات مشورے سے طے پاتے ہوں تو اِن حالات میں تمہارے لیے زمین کا اوپر والا حصہ اندرونی حصے سے بہتر ہے۔ یعنی زندگی موت سے بہتر ہو گی اور جب تم میں سے بدترین لوگ حاکم بن جائیں، تمہارے مال دار لوگ بخیل بن جائیں اور تمہارے معاملات تمہاری عورتیں طے کرنے لگ جائیں تو ان حالات میں تمہارے لیے زمین کا اندرونی حصہ اوپر والے حصے سے بہتر ہے۔ یعنی موت زندگی سے بہتر ہو گی(جامع الترمذی: 2266)۔مذکورہ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے امت کی تین خوبیوں کا فائدہ اور تین برائیوں کا نقصان ذکر فرمایا ہے۔
پہلی خوبی :نیک حکمران
اللہ کے رسول ﷺ نے پہلی خوبی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے اچھے اور بہتر لوگ تمہارے حاکم ہو جائیں۔ ایسے حاکم عدل و انصاف، امن وامان، ترقی و خوشحالی، تعلیم و صحت الغرض تمہاری تمام ضروریات کو احسن طریقے سے پور ا کریں گے تو ظلم و ناانصافی، بد امنی، تنزلی، جہالت اور بیماریوں سے پاک معاشرہ ہو گا۔ اسلام کی روشن تاریخ کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو ایسے ہی معاشرے کی نمایاں تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ عدل و انصاف، امن و امان اور تعمیر وترقی کی وجہ سے عوام خوشحال تھے۔ آج کی دنیا جمہوری نظام سیاست کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہم اپنے حکمران خود منتخب کرتے ہیں اس لیے ہمیں اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنا حکمران اسے چنیں جو عدل و انصاف، امن و امان، تعمیر و ترقی، تعلیم وصحت کے قیام کی صلاحیت رکھتا ہو، دین اسلام کی تعلیمات سے واقف ہو اور عوام کا ہمدرد ہو۔ جب ہمیں ایسا حکمران مل جائے گا تو ہمارا معاشرہ عدل و انصاف، تعمیر و ترقی، امن وامان اور خوشحالی سے بھر جائے گا۔ جب معاشرہ امن و امان، عدل و انصاف سے بھر جائے تو اب اہل اسلام کا زندہ رہ کر عدل وانصاف اور امن و امان قائم کرتے رہنا ان کے فنا ہو جانے سے بہتر ہے۔
دوسری خوبی:سخی مال دار
اللہ کے رسول ﷺ نے دوسری خوبی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے مال دار لوگ سخی ہو جائیں۔ایسے مال دار لوگ راہِ حق میں خرچ کرنے والے ہوں، ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہوں، زکوٰۃ کا نظام فعال ہو، اسلام کا رفاہی نظام عام ہو، صدقات، خیرات کا ماحول ہو۔ مذکورہ بالا نیکیوں کی وجہ سے مصیبتیں اور پریشانیاں ختم ہوں گی، جرائم کی شرح کم ہوگی۔ آج دنیا میں مختلف غیر سرکاری تنظیمیں اپنے مفادات کے حصول کیلئے کام کر رہی ہیں۔ ایسے حالات میں اہل اسلام کا وہ طبقہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے اسے چاہیے کہ وہ غریبوں، یتیموں،مسکینوں، بیواؤں اور ضرورت مندوں اور مفت دینی علوم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کیلئے اپنے مال کو خرچ کریں۔ جب ایسے سخی مال دار مل جائیں گے تو ہمارے معاشرے میں ضرورت مندوں کو سہارا ملے گا۔ جب معاشرہ میں ضرورت مند لوگ خود کفیل ہو جائیں تو اب اہل اسلام کا زندہ رہ کر دوسروں کو اپنی ذات سے نفع پہنچاتے رہنا ان کے فنا ہو جانے سے بہتر ہے یعنی زندگی موت سے بہتر ہے۔
تیسری خوبی:شورائی نظام
اللہ کے رسول ﷺ نے تیسری خوبی یہ ذکر فرمائی کہ جب تمہارے باہمی معاملات شوریٰ سے طے پائے جانے لگیں۔ مشورہ میں اللہ تعالیٰ نے خیر اور برکت رکھی ہے۔ اس کی تاثیر یہ ہے کہ غلط فیصلوں اور ان کے برے انجام سے حفاظت ہو جاتی ہے ۔اس بات کا ضرور خیال رکھا جائے کہ ہر شخص سے اس کی ذہنی صلاحیت کے مطابق مشورہ لیا جائے۔جب تک باہمی مشاورت سے فیصلے کیے جاتے رہیں گے اس وقت تک اس امت میں خیر رہے گی اب اس کا زندہ رہنا اس کے فنا ہو جانے سے بہتر ہے۔ یہ معنی ہے کہ زندگی موت سے بہتر ہے۔
پہلی برائی:بدترین حکمران
اللہ کے رسول ﷺ نے پہلی برائی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے بدترین لوگ تمہارے حاکم بن جائیں ۔ایسے حاکم ظلم و ناانصافی، بدامنی اور فتنہ و فساد برپا کریں گے اور جب معاشرے میں کھلم کھلا خدا تعالیٰ کی نافرمانی او ر ظلم و ناانصافی پھیل جائے تو اب دنیا میں رہنے سے بہتر ہے کہ انسان مر جائے۔
یہاں ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ حدیث مبارک کے مذکورہ بالا مفہوم سے خودکشی جیسا برا جرم ثابت نہیں ہو رہا اور نہ ہی اس میں کم ہمتی کی تعلیم دی جارہی ہے ۔یہ بتایا جا رہا ہے کہ ایسے ماحول میں لوگ خدا کی زمین پر بوجھ بن جائیں گے اور موت تمہارے لیے زندگی سے بہتر ہو گی کہ اس کی وجہ سے کم از کم انسان مزید اللہ کی نافرمانیاں کرنے سے بچ جائے گا اور اس کے ایمان اور نیک اعمال کی حفاظت کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔ گناہوں سے بچنے کی وجہ سے کہا جارہا ہے کہ موت زندگی سے بہتر ہے۔
دوسری برائی:بخیل مال دار
اللہ کے رسول ﷺ نے دوسری برائی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے مال دار لوگ بخیل بن جائیں۔ ایسے لوگ مال کی محبت کا شکار ہوجائیں گے راہ خدا میں خرچ کرنے کا تصور مٹ جائے گا،ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری نہیں ہوں گی تو معاشرتی جرائم چوری، ڈاکہ اور رشوت وغیرہ بڑھ جائیں گے۔ اسلام کا رفاہی نظام بالخصوص زکوٰۃ، صدقات وغیرہ کا نظام ٹھپ ہو کر جائے گا۔ جب ماحول ایسا بن جائے کہ جرائم عام ہوجائیں ، صدقات اور زکوٰۃ وغیرہ کو چھوڑ دیا جائے تو خدا کا عذاب نازل ہوگا۔ زندہ رہ کر اس عذاب کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ انسان مر جائے ۔
تیسری برائی:معاملات عورتوں کے سپرد
اللہ کے رسول ﷺ نے تیسری برائی یہ ذکر فرمائی کہ جب تمہارے تمام معاملات تمہاری خواتین کے سپرد ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا کرم دیکھیے کہ صنف نازک میں قوتِ فیصلہ کو فطری طور پر بہت کم رکھا گیا ہے تاکہ گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ کا بوجھ ان پر نہ ڈالا جا سکے۔ جب تمام معاملات ہی عورتوں کے سپرد کر دیئے جائیں تو ان کی حیثیت سے بڑھ کر ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ آئے گا جس کی وجہ سے یہ درست فیصلہ نہ کر پائیں گی۔ عورت کے مقابلے میں مرد مجموعی طور پر بہادر، معاملہ فہم، دور اندیش اور جفاکش ہوتاہے اور معاملات کے حل میں انہی مذکورہ اوصاف کو اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے فتنہ وفساد میں مبتلا ہونے سے بہتر ہے کہ انسان زندگی کو خیر باد کہہ کر موت کا خیر مقدم کر لے۔ اللہ تعالیٰ مذکورہ بالا حدیث مبارک پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین