گورنر سندھ کا معاملہ اور واوڈا کی پیشگوئیاں
سندھ کی سیاست میں ایک بار پھر گورنر کی تبدیلی کا غلغلہ ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے گزشتہ دنوں گورنر کی تبدیلی کا عندیہ دیا تھا، ساتھ ہی یہ بھی بولے کہ تبدیلی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
انہوں نے نام لیے بغیر ایک گورنر پر کرپشن کا الزام بھی عائد کردیا۔ کہتے ہیں جہاں گڑھا ہوتا ہے وہیں پانی بھرتا ہے۔ جواب میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے فیصل واوڈا کو بھائی قرار دیا اور کہا کہ ان کی بات کا کسی کو بھی برُا نہیں ماننا چاہیے، نہ وہ خود برا مانتے ہیں، واوڈا تو ایسے کھلاڑی ہیں جو اپنے ہی خلاف گول کردیتے ہیں۔ گورنر نے ہلکے پھلکے انداز میں تنقید بھی کرڈالی اور بولے کہ فیصل واوڈا دل کے اچھے ہیں لیکن واوڈا جس یونیورسٹی سے ڈاکٹر بنے ہیں وہیں سے ہم نے پی ایچ ڈی اور سرجن شپ کی ہے۔ قارئین یقینی طور پر گورنر صاحب کا اشارا سمجھ گئے ہوں گے۔البتہ ایم کیو ایم رہنما خواجہ اظہار الحسن کا لہجہ خاصا طنزیہ اور تلخ نظر آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنر تو کہیں نہیں جارہے لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ ان کی تبدیلی کی خواہش رکھنے والے یہ ارمان دل میں لیے رخصت ہوجائیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی اپنی سیدھی سادھی رائے دے ڈالی کہ ان کے ہوتے ہوئے اب تک سندھ میں چار یا پانچ گورنر آچکے ہیں لیکن ان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ ویسے بھی گورنر کا تقرر یا تبدیلی وفاق کا معاملہ ہے، وفاق ان سے مشاورت کا پابند بھی نہیں ہے، وہ بھی دوسروں کی طرح گورنر کے معاملے پر اخبارات ہی میں پڑھ رہے ہیں۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ ہر پانچ سال بعد آنے والے این ایف سی ایوارڈ کو 15 سال ہوچکے ہیں اور صوبے اس کی آمد کے منتظر ہیں۔ یہ ایوارڈ صوبوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ این ایف سی ایوارڈ پر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ نئے ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ بڑھے گا، کم نہیں ہوگا۔ وفاقی حکومت بھی کچھ خیال کرے، اب اسے ایوارڈ کا اعلان کردینا چاہیے۔سندھ میں جعلی ڈومیسائل پر نوکریوں کا معاملہ بھی زبان زد عام ہے۔ ایم کیو ایم نے جعلی ڈومیسائل اور پی آر سی پر سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے والوں کے خلاف سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔ اب تک اس کیس کی چار سماعتیں ہوچکی ہیں،چند روز قبل بھی تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت مانگی جس پر عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔ میڈیا سے گفتگو میں خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ انہوں نے اس سنگین مسئلے پر سندھ اسمبلی میں آٹھ برس پہلے بھی بات کی تھی۔ایوان سے انصاف نہ ملنے پر انہوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ بقول ان کے 55ہزار جعلی ڈومیسائل بنائے گئے اور پورے ملک سے لوگ یہاں آکر ڈومیسائل بنواتے ہیں اور نوکریاں حاصل کرلیتے ہیں اس طرح صوبے کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، حکومت بھی تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے، ہمیں تو تاریخ پر تاریخ مل رہی ہے، عدالتوں سے بھی انصاف نہ ملا تو مظلوم کہاں جائیں گے۔ دوسری جانب کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 241میں مبینہ دھاندلی کیس میں تحریک انصاف کو خاصا ریلیف مل گیا ہے۔ پی ٹی آئی امیدوار خرم شیر زمان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کر رکھا ہے، جہاں دو رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا ہے۔ساتھ ہی الیکشن کمیشن، وفاقی حکومت اور دیگر فریقین کو بھی نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔ فریقین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 30 دسمبر تک جواب جمع کرائیں۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 17ویں برسی کی تاریخ بھی قریب آرہی ہے۔ 27دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں اجتماع ہوگا جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو شرکت کریں گے۔ برسی کی تیاریوں کے سلسلے میں صوبائی محکمہ داخلہ نے ایک عرضی وفاقی وزارت داخلہ کو بھیجی ہے جس میں ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ برسی کے موقع پر انتہائی اہم شخصیات موجود ہوں گی، فضائی نگرانی کے لیے ہیلی کاپٹر دیا جائے۔ امید ہے کہ درخواست منظور کر لی جائے گی۔ سندھ اسمبلی کے ارکان کے لیے ایک خوشی کی خبر ہے کہ پیر کو پنجاب اسمبلی نے ارکان کی تنخواہوں پر نظر ثانی کی اور پیش کردہ بل کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا جس کے بعد ایم پی اے کی تنخواہ 76ہزار روپے سے بڑھاکر چارلاکھ روپے ہوگئی ہے، صوبائی وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھ کر 9لاکھ 60ہزار روپے ہوجائے گی،سپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 25ہزار سے بڑھ کر 9لاکھ 50ہزارروپے اور ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20ہزار روپے سے بڑھا کر 7لاکھ 75ہزار روپے کردی گئی، پارلیمانی سیکرٹری کی تنخواہ بھی 83ہزارروپے سے بڑھ کر 4لاکھ 51ہزار روپے ہو جائے گی۔ مشیر وزیر اعلیٰ کی تنخواہ ایک لاکھ روپے تھی جو اب 6لاکھ 65ہزار روپے ہوگی۔ سندھ اسمبلی کے لیے موقع ہے اور نظیر سامنے آچکی ہے، جلدی سے بل تیار کریں، اسمبلی میں پیش کریں اور منظور کرالیں۔ قوی امکان ہے کہ پنجاب اسمبلی کی طرح یہاں بھی اپوزیشن ہلکا سا احتجاج کرے گی، تھوڑی بہت تنقید کرے گی اور پھر’’ غریب ملک‘‘ کی ’’غریب اسمبلی ‘‘کے تمام ارکان بادلِ نخواستہ تنخواہ میں اضافے کو منظور کرلیں گے۔ گھر آئی لکشمی کو کون ٹھکراتا ہے۔