سیاسی استحکام اور عوامی مسائل کی گونج
بلوچستان میں معاشی اور سیاسی پیش رفت کے تناظر میں ترقی کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی، سرحدی تجارت کی بحالی اور معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کی حکومتی منصوبہ بندی اہم اقدامات ہیں۔ دوسری جانب گورنر جعفر خان مندوخیل اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بیانات نے پالیسی سازی میں شفافیت اور عوامی شمولیت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
رواں ہفتہ بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی کا منصوبہ ایک بار پھر توجہ کا مرکز رہا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی بلوچستان کی معیشت اور زرعی پیداوار کیلئے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ بلوچستان کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے اور پانی کی قلت ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی سے بجلی کی بچت اور زرعی پیداوار میں اضافہ متوقع ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ منصوبہ کب پایہ تکمیل کو پہنچے گا اور اس کی شفافیت کیسے یقینی بنائی جائے گی؟ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ طے شدہ مدت میں مکمل ہو جاتا ہے تو بلوچستان میں زرعی ترقی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ اس منصوبے کے سیاسی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اس منصوبے کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی یقین دہانی سیاسی عزم کا اظہار ہے لیکن اس عزم کو عملی جامہ پہنانے کیلئے متعلقہ اداروں کا متحرک ہونا بھی ضروری ہے۔پالیسی سازی کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کا اعلان خوش آئند ہے مگر اس عمل میں شفافیت اور عوامی نگرانی کے نظام کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔
دوسری جانب تاجروں سے بات چیت کے دوران گورنر شیخ جعفر مندوخیل نے کہا ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے کو سرمایہ کاری کیلئے مثالی مقام حاصل ہے جس کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس طرح کے اعلانات ماضی میں بھی کیے گئے لیکن عملی اقدامات کی کمی نے ترقی کی رفتار کو سست رکھا۔ بلوچستان کا جغرافیائی محل وقوع اسے جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک قدرتی تجارتی راہداری بناتا ہے جبکہ سونا، تانبا، کرومائیٹ اور ماربل جیسے معدنی وسائل کی موجودگی بڑے پیمانے پر صنعتی ترقی کے مواقع فراہم کرتی ہے لیکن ناقص انتظامی ڈھانچہ اور امن و امان کی غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ گورنر بلوچستان کا چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کو شامل کرنے کا ذکر اہم ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ حکومت سرمایہ کاروں کو راغب کرنا چاہتی ہے تو اسے ٹیکس مراعات، قانونی تحفظ اور سازگار کاروباری ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ یہ اقدامات مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کر سکتے ہیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ سرمایہ کاری کے عمل میں مقامی آبادی کو شامل کیا جائے تاکہ وہ ترقی کے فوائد سے براہ راست مستفید ہو سکیں۔ شفافیت اور شراکت داری کے بغیر ترقی کا خواب حقیقت نہیں بن سکتا۔ گورنر کی چینی سرمایہ کاروں سے ملاقات اور سرمایہ کاری کی دعوت بھی ایک مثبت قدم ہے لیکن حکومت کو طویل مدتی منصوبہ بندی اور ٹھوس اقدامات کے ذریعے بلوچستان کی حقیقی ترقی کا آغاز کرنا ہوگا۔
پاک ایران بارڈر تجارتی پوائنٹ کی دو ماہ کی بندش کے بعد بحالی نے بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں معاشی سرگرمیوں کو بحال کر دیا ہے۔ یہ تجارتی راستہ چاغی کے عوام کیلئے روزگار اور کاروبارکا اہم ذریعہ ہے جس کی بندش نے شدید معاشی بحران کو جنم دیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بارڈر پوائنٹ کی بحالی ایک خوش آئند پیش رفت ہے لیکن حکومت کی جانب سے سرحدی تجارت کے مستقل اور پائیدار انتظامات کی اشد ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق بلوچستان کی معیشت کا بڑا حصہ سرحدی تجارت سے جڑا ہوا ہے اور راجے پوائنٹ جیسے تجارتی مراکز کی بندش ہزاروں خاندانوں کو بے روزگار کر سکتی ہے۔ راجے پوائنٹ جیسے سرحدی مراکز کی بندش سے نہ صرف مقامی کاروبار متاثر ہوتے ہیں بلکہ قومی معیشت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ روزانہ سینکڑوں گاڑیاں ایرانی مصنوعات لے کر یہاں سے گزرتی ہیں جو مقامی معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بندش کے دوران ان اشیاکی قلت اور قیمتوں میں اضافے نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ سیاسی اور کاروباری حلقوں کا کہناہے کہ سرحدی تجارت کیلئے جامع پالیسی مرتب کی جانی چاہیے کیونکہ بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے میں سرحدی تجارت کو فروغ دینا غربت کے خاتمے اور معیشت کے استحکام کیلئے ضروری ہے۔راجے پوائنٹ کی بحالی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت اور مقامی قیادت مل کر کام کریں تو بڑے سے بڑے مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان کی سیاسی و معاشی صورتحال پر نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے حالیہ بیانات نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ان کی جانب سے بارڈر تجارت پر عائد قدغنوں اور ٹوکن سسٹم کے خاتمے اور سرکاری ملازمتوں میں میرٹ کی بحالی جیسے مطالبات نہ صرف عوامی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ حکومت کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ بلوچستان میں سرحدی تجارت اور ملازمتوں کی غیر منصفانہ تقسیم عرصے سے عوامی احتجاج اور سیاسی بیانیے کا اہم حصہ رہی ہے۔ بارڈر تجارت پر ٹوکن سسٹم کا نفاذ اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کی موجودگی مقامی کاروباری برادری کیلئے مشکلات کا سبب بن رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو بارڈر تجارت سے متعلق جامع اور شفاف پالیسی وضع کرنی چاہیے تاکہ مقامی آبادی معاشی ترقی کے عمل میں شامل ہو سکے۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی جانب سے لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کرنا بھی اہم سیاسی نکتہ ہے۔سرکاری ملازمتوں میں میرٹ کا فقدان بھی بلوچستان کے نوجوانوں کی مایوسی کا بڑا سبب ہے۔حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بارڈر تجارت کو آزاد کرنے اور ٹوکن سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
بلوچستان میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جانب سے پولیو مہم کے بائیکاٹ نے صحت عامہ کے نظام کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔ انسداد پولیو مہم میں تعطل سے وائرس کے دوبارہ پھیلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ ہسپتالوں کی نجکاری، طبی عملے کی عارضی بنیادوں پر بھرتی اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی جیسے مسائل عرصے سے زیر بحث ہیں۔ گوادر میں پولیو ورکرز کا بائیکاٹ اور انسداد پولیو ٹیموں کی عدم دستیابی اس مسئلے کی سنگینی کو مزید بڑھاتی ہے۔ حکومت کو فوری طور پر یہ تنازع حل کر کے پولیو مہم کا دوبارہ آغاز کرنا ہوگا تاکہ بلوچستان کے بچوں کی صحت کو محفوظ بنایا جا سکے۔ صحت کے شعبے میں مسائل کا حل صرف احتجاج کے خاتمے سے ممکن نہیں بلکہ جامع اور شفاف پالیسی کے ذریعے صحت عامہ کی بہتری کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔