رنگ برنگی تتلیاں

تحریر : اقصیٰ چوہدری


تتلیاں کم وبیش دنیا کے ہر ملک میں پائی جاتی ہیں۔ان کے بے شمار رنگ اور قسمیں ہیں۔تتلیاں سارا دن پھولوں اور پھلوں کا رس چوس کر اپنا پیٹ بھرتی ہیں۔یہ پودوں کی افزائش و نسل میں بھی اہم کر دار ادا کرتی ہیں،کیونکہ یہ درختوں میں کراس پولی نیشن کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔تتلیو ں کے پَر بے حد نازک ہوتے ہیں،اور ہاتھ میں پکڑنے سے یہ اپنے پَروں کے حسین رنگ ہاتھوں پر چھوڑ جاتی ہیں۔تتلیوں کی بعض اقسام کے پَروں میں قدرتی خوشبو بھی ہوتی ہے۔

بچو! کیا آپ جانتے ہیں کہ تتلیوں کی پیدائش کا طریقہ بھی نرالا ہے۔سب سے پہلے مادہ تتلی کسی بھی ہرے بھرے درخت کے تازہ پتے کی پچھلی سطح پر ایک ننھا منا موتی جیسا چمکیلا انڈا دیتی ہے۔اس کی جسامت ایک چھوٹی پِن کے سرے کے برابر ہوتی ہے۔انڈا دینے کے بعد تتلی اُڑ جاتی ہے اور واپس یہاں نہیں آتی۔

تقریباً ایک ہفتے کے بعد انڈے سے نرم و ملائم ریشم جیسا سبز رنگ کا خوبصورت کیڑانکلتا ہے جو لاروا کہلاتا ہے۔اس کا سائز تقریباً پانچ ملی میٹر تک ہوتا ہے۔انڈے سے نکلنے کے بعد یہ شاخ سے پتیاں کھانا شروع کر دیتا ہے، اور بڑی مقدار میں خوراک جمع کر لیتا ہے۔ جیسے جیسے دن گزرتے جاتے ہیں یہ اپنی شکل اور رنگ میں تبدیلیاں کرتا رہتا ہے،اور ساتھ ساتھ اس کی جسامت بھی بڑھتی رہتی ہے۔ایک بالغ لاروے کا سائز پانچ سینٹی میٹر تک ہوتا ہے جو سر سے دُم تک سینکڑوں تہہ دار جھلیوں میں ڈھکا رہتا ہے۔رفتہ رفتہ اس کے اوپر دو چھوٹے چھوٹے سینگ نما اُبھار ظاہر ہونے لگتے ہیں،اور جسم سے سخت بد بودار مادہ بھی خارج ہوتا ہے۔جو اس بات کی علامت ہے کہ لاروا اب اگلے مرحلے میں پہنچنے کیلئے تیار ہے۔

چار ہفتوں کے بعد لاروا  اگلے مرحلے یعنی پیو پا بننا شروع ہو جاتا ہے۔اس کے اگلے حصے یعنی سر سے ذرا نیچے کی طرف سے باریک تار نما دو دھاگے نکلتے ہیں جو حفاظتی گھیرے کہلائے جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ قد میں چھوٹا اور جسامت میں موٹا ہوتا جاتا ہے۔اس کی بیرونی جھلی بھی سخت ہونا شروع ہو جاتی ہے۔یہ اپنے اطراف میں موجود پھولوں اور پتوں کا ہم رنگ ہوجاتا ہے۔اس وقت یہ بالکل مونگ پھلی کے خول کی مانند بے جان اور بے کار سی چیز دکھائی دیتا ہے،لیکن حقیقت میں اس معمولی خول کے اندر اس میں قدرتی طور پر کیمیائی عمل اور حیرت انگیز تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہوتی ہیں۔

چند ہفتوں بعد موسمی حالات بھی اچھے ہوں تو اس خول کی پچھلی جانب ایک دراڑ پڑ جاتی ہے،جو کچھ وقفے کے بعدکھل کر بڑی ہو جاتی ہے اور اس میں سے ایک خوبصورت اور رنگ برنگی تتلی نکل کر ہوائوں میں اُڑنے لگتی ہے۔یہ تتلی پھولوں اور پھلوں پر بیٹھ کر ان کا رس چوستی ہے، تھوڑے دن گزرنے کے بعد یہ تتلی انڈے دیتی ہے اور انڈے دینے کے بعد مر جاتی ہے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

معاشی میدان سے اچھی خبریں!

ملکی سیاسی میدان میں غیریقینی کی صورتحال برقرار ہے مگر معاشی میدان سے اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ دو سال قبل جس ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جا رہی تھیںوہ ملک اب نہ صرف دیوالیہ پن کے خطرے سے نکل آیا ہے بلکہ مثبت معاشی اشاریوں نے امید کی کرن بھی پیدا کردی ہے۔

سیاسی مذاکرات،پس منظر میں کیا چل رہا ہے ؟

بانی پی ٹی آئی کی جانب سے سول نافرمانی کی کال سے پسپائی ظاہر کرتی ہے کہ پی ٹی آئی اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ سیاست میں احتجاج اور جارحانہ طرزِ عمل کچھ وقت تک تو مؤثر ہوتا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں نہ تو حکومتیں گرائی جا سکتی ہیں اور نہ ہی انہیں سرنڈر پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

گورنر سندھ کا معاملہ اور واوڈا کی پیشگوئیاں

سندھ کی سیاست میں ایک بار پھر گورنر کی تبدیلی کا غلغلہ ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے گزشتہ دنوں گورنر کی تبدیلی کا عندیہ دیا تھا، ساتھ ہی یہ بھی بولے کہ تبدیلی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

سول نافرمانی کے نتائج اور عواقب

بانی پی ٹی آئی کے سول نافرمانی کے اعلان سے پی ٹی آئی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔پارٹی اس تذبذب کی کیفیت میں ہے کہ سول نافرمانی کیسے کی جائے اور یہ کہ عام آدمی اس کیلئے ساتھ دے گا؟یہ وہ سوال ہیں جن کا پارٹی قیادت کے پاس کوئی جواب نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ پریشانی ہے کہ اس سے مقتدرہ کے ساتھ دوریاں مزید بڑھ جائیں گی۔

سیاسی استحکام اور عوامی مسائل کی گونج

بلوچستان میں معاشی اور سیاسی پیش رفت کے تناظر میں ترقی کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی، سرحدی تجارت کی بحالی اور معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کی حکومتی منصوبہ بندی اہم اقدامات ہیں۔ دوسری جانب گورنر جعفر خان مندوخیل اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بیانات نے پالیسی سازی میں شفافیت اور عوامی شمولیت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ایوان میں تبدیلی کی سرگوشیاں

آزاد جموں و کشمیر میں سردی ان دنوں زوروں پر ہے مگر ریاست کا سیاسی درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ قانون ساز اسمبلی میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف خواجہ فاروق احمد وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی ممکنہ تبدیلی کی مبینہ کوششوں کے درمیان پشاور پہنچ گئے جہاں انہوں نے وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈا پور سے ملاقات کی اور جماعت کی آزاد کشمیر شاخ کی پالیسی کے حوالے سے مشاورت کی۔