سوء ادب :بُھولی بسری بولیاں

تحریر : ظفر اقبال


کچھ بُھولی بسری بولیاں یاد آرہی ہیں، آغاز میں وہی آ پ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں ۔ سانوں مسّیاچ پَین بُھلیکھے تیری وے سندھوری پگ دے ٭٭٭

کوٹھے کوٹھے آ  لچھیے

تینوں بنتو دا یار وکھاواں 

٭٭٭

کھنگھ کے نہ لنگھ مُنڈیا 

میری سس وہماں دی ماری 

٭٭٭

ٹانگہ آگیا کچہریوں خالی 

سجنا ں نوںقید بول گئی 

٭٭٭

دعائوں بھرے دالان 

یہ حماد نیازی کا مجموعۂ کلام ہے جسے کولاج پبلیشرز لاہور نے چھاپا ہے۔ اتنساب اِس طرح سے ہے ــ: ’’اپنے ابو جی کے نام جنہوں نے مجھے گریے کی تہذیب سے آشنا کیا اور دعائوں بھرے دالان میرے ورثے میں چھوڑے‘‘۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر کے ساتھ یہ شعر درج ہے ۔

ویرانی کی گرد چھٹے اور تُو آئے

تُو آئے اور ایک نئی ویرانی ہو

دیباچہ دانیال طریر نے لکھا ہے جن کے مطابق ’’حماد نیازی جس تخلیقی متن کے ساتھ منثائے شہود پر آیا ہے وہ تہدیدات سے عاری نہیں۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ وہ تخلیقی عمل کو تخلیقی وجود کے جغرافیے سے آزاد تصور نہیں کرتا۔ وہ یہ جانتا ہے کہ قاری کی چشمِ بینا تحصیلِ معانی اور کشیدِ مسرت کیلئے آزاد نہیں بلکہ اِن تہدیدات کی پابند ہے جس کے قیام میں اِس کا آزا د تخلیقی عمل جغرافیہ ٔ وجود کا پابند رہا ہے۔ اِس لیے یہ بات طے ہے کہ حماد نیازی کا تخلیقی متن ’’ کثرتِ تعبیر ‘‘کاخواہاں نہیں بلکہ تعبیرِ حقیقت کا خواہاں ہے، وہ حقیقت جو اِس کے تخلیقی محرک ،مئوقف اور اسلوب کو محیط ہے ‘‘

اِس شاعری میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں نئے نئے اور اجنبی بھی ہیں اور مانوس بھی۔ بات کہنے کا انداز نیا اور خوبصورت ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شاعر ادبی برادری میں بہت جلد ایک اچھا مقام حاصل کر لے گا ۔نمونہ ٔ  شعر کے طور پر یہ غزل دیکھئے!

غزل

کتنے برس سے دیکھ رہا ہوں خوا ب کوئی بیداری میں 

نیند کے برتن ٹوٹ گئے ہیں آنکھوں کی الماری میں 

بوسے لیتی پیشانی تھی، ویرانی کا رزق بنی 

زنگ لگا آوازوں کو اور زہر ملا ترکاری میں 

ایک بدن کی خاموشی نے دل میں شور کی گرد بھری 

تاریکی کی آیت پڑھ کر وصل کیا بیزار ی میں 

کون کہاں کب کیسے بچھڑا کس کو کیا بتلاتے ہم 

ہم نے اپنی عمر بِتا دی دل کی تابعداری میں 

گریے کی تہذیب میں ہم نے سانسوں کا تاوان بھرا 

اور پھر خاک ہوئے ہم خود سے ملنے کی تیار میں 

درگاہو ں کی مٹی پھانکی، سینہ ریگستان کیا 

خالی پن کو حفظ کیا ہم نے تیری دلداری میں 

بھائی ہم لا یعنی سطریں، کون ہمارا قاری ہو 

ہم لمحے بیکار گھڑی کے بسر ہوئے لاچاری میں 

آج کا قطع

کس نئے خواب میں رہتاہوں ڈبویا ہُوامیں 

مدتیں ہو گئیں جاگا نہیں سویا ہُوا میں 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

معاشی میدان سے اچھی خبریں!

ملکی سیاسی میدان میں غیریقینی کی صورتحال برقرار ہے مگر معاشی میدان سے اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ دو سال قبل جس ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جا رہی تھیںوہ ملک اب نہ صرف دیوالیہ پن کے خطرے سے نکل آیا ہے بلکہ مثبت معاشی اشاریوں نے امید کی کرن بھی پیدا کردی ہے۔

سیاسی مذاکرات،پس منظر میں کیا چل رہا ہے ؟

بانی پی ٹی آئی کی جانب سے سول نافرمانی کی کال سے پسپائی ظاہر کرتی ہے کہ پی ٹی آئی اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ سیاست میں احتجاج اور جارحانہ طرزِ عمل کچھ وقت تک تو مؤثر ہوتا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں نہ تو حکومتیں گرائی جا سکتی ہیں اور نہ ہی انہیں سرنڈر پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

گورنر سندھ کا معاملہ اور واوڈا کی پیشگوئیاں

سندھ کی سیاست میں ایک بار پھر گورنر کی تبدیلی کا غلغلہ ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے گزشتہ دنوں گورنر کی تبدیلی کا عندیہ دیا تھا، ساتھ ہی یہ بھی بولے کہ تبدیلی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

سول نافرمانی کے نتائج اور عواقب

بانی پی ٹی آئی کے سول نافرمانی کے اعلان سے پی ٹی آئی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔پارٹی اس تذبذب کی کیفیت میں ہے کہ سول نافرمانی کیسے کی جائے اور یہ کہ عام آدمی اس کیلئے ساتھ دے گا؟یہ وہ سوال ہیں جن کا پارٹی قیادت کے پاس کوئی جواب نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ پریشانی ہے کہ اس سے مقتدرہ کے ساتھ دوریاں مزید بڑھ جائیں گی۔

سیاسی استحکام اور عوامی مسائل کی گونج

بلوچستان میں معاشی اور سیاسی پیش رفت کے تناظر میں ترقی کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی، سرحدی تجارت کی بحالی اور معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کی حکومتی منصوبہ بندی اہم اقدامات ہیں۔ دوسری جانب گورنر جعفر خان مندوخیل اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بیانات نے پالیسی سازی میں شفافیت اور عوامی شمولیت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ایوان میں تبدیلی کی سرگوشیاں

آزاد جموں و کشمیر میں سردی ان دنوں زوروں پر ہے مگر ریاست کا سیاسی درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ قانون ساز اسمبلی میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف خواجہ فاروق احمد وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی ممکنہ تبدیلی کی مبینہ کوششوں کے درمیان پشاور پہنچ گئے جہاں انہوں نے وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈا پور سے ملاقات کی اور جماعت کی آزاد کشمیر شاخ کی پالیسی کے حوالے سے مشاورت کی۔