سوء ادب :بُھولی بسری بولیاں
کچھ بُھولی بسری بولیاں یاد آرہی ہیں، آغاز میں وہی آ پ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں ۔ سانوں مسّیاچ پَین بُھلیکھے تیری وے سندھوری پگ دے ٭٭٭
کوٹھے کوٹھے آ لچھیے
تینوں بنتو دا یار وکھاواں
٭٭٭
کھنگھ کے نہ لنگھ مُنڈیا
میری سس وہماں دی ماری
٭٭٭
ٹانگہ آگیا کچہریوں خالی
سجنا ں نوںقید بول گئی
٭٭٭
دعائوں بھرے دالان
یہ حماد نیازی کا مجموعۂ کلام ہے جسے کولاج پبلیشرز لاہور نے چھاپا ہے۔ اتنساب اِس طرح سے ہے ــ: ’’اپنے ابو جی کے نام جنہوں نے مجھے گریے کی تہذیب سے آشنا کیا اور دعائوں بھرے دالان میرے ورثے میں چھوڑے‘‘۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر کے ساتھ یہ شعر درج ہے ۔
ویرانی کی گرد چھٹے اور تُو آئے
تُو آئے اور ایک نئی ویرانی ہو
دیباچہ دانیال طریر نے لکھا ہے جن کے مطابق ’’حماد نیازی جس تخلیقی متن کے ساتھ منثائے شہود پر آیا ہے وہ تہدیدات سے عاری نہیں۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ وہ تخلیقی عمل کو تخلیقی وجود کے جغرافیے سے آزاد تصور نہیں کرتا۔ وہ یہ جانتا ہے کہ قاری کی چشمِ بینا تحصیلِ معانی اور کشیدِ مسرت کیلئے آزاد نہیں بلکہ اِن تہدیدات کی پابند ہے جس کے قیام میں اِس کا آزا د تخلیقی عمل جغرافیہ ٔ وجود کا پابند رہا ہے۔ اِس لیے یہ بات طے ہے کہ حماد نیازی کا تخلیقی متن ’’ کثرتِ تعبیر ‘‘کاخواہاں نہیں بلکہ تعبیرِ حقیقت کا خواہاں ہے، وہ حقیقت جو اِس کے تخلیقی محرک ،مئوقف اور اسلوب کو محیط ہے ‘‘
اِس شاعری میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں نئے نئے اور اجنبی بھی ہیں اور مانوس بھی۔ بات کہنے کا انداز نیا اور خوبصورت ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شاعر ادبی برادری میں بہت جلد ایک اچھا مقام حاصل کر لے گا ۔نمونہ ٔ شعر کے طور پر یہ غزل دیکھئے!
غزل
کتنے برس سے دیکھ رہا ہوں خوا ب کوئی بیداری میں
نیند کے برتن ٹوٹ گئے ہیں آنکھوں کی الماری میں
بوسے لیتی پیشانی تھی، ویرانی کا رزق بنی
زنگ لگا آوازوں کو اور زہر ملا ترکاری میں
ایک بدن کی خاموشی نے دل میں شور کی گرد بھری
تاریکی کی آیت پڑھ کر وصل کیا بیزار ی میں
کون کہاں کب کیسے بچھڑا کس کو کیا بتلاتے ہم
ہم نے اپنی عمر بِتا دی دل کی تابعداری میں
گریے کی تہذیب میں ہم نے سانسوں کا تاوان بھرا
اور پھر خاک ہوئے ہم خود سے ملنے کی تیار میں
درگاہو ں کی مٹی پھانکی، سینہ ریگستان کیا
خالی پن کو حفظ کیا ہم نے تیری دلداری میں
بھائی ہم لا یعنی سطریں، کون ہمارا قاری ہو
ہم لمحے بیکار گھڑی کے بسر ہوئے لاچاری میں
آج کا قطع
کس نئے خواب میں رہتاہوں ڈبویا ہُوامیں
مدتیں ہو گئیں جاگا نہیں سویا ہُوا میں