ماہ ِ جماد ی الثانی کی تاریخی اہمیت
موسمی کیفیت کے پیش ِ نظر اس ماہ کا نام جمادی الثانی رکھا گیا، جس کا مطلب ’’دوسری ٹھنڈک‘‘ہے ’’جنگ یرموک‘‘ اس ماہ کا اہم ترین واقعہ ہے ،جو خلیفہ راشد حضرت عمر بن خطابؓ کے عہد ِ مبارک میں میں لڑی گئی حضرت کعب بن مالک ؓ ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت ابودرداء ؓکا انتقال اس ماہ میں ہوا
ماہ جمادی الثانی ہجری اعتبار سے چھٹا مہینہ ہے،اس مہینے پر اسلامی سال کا نصف ہوتا ہے۔اس کو جمادی الاخریٰ بھی کہا جاتا ہے، مفسر علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر میں اس کی وجہ تسمیہ یہ ذکر کی ہے کہ یہ نام ’’جمادی‘‘ اور ’’الثانی‘‘دو لفظوں کا مجموعہ ہے،جمادی جمد سے بنا ہے جس کے معنی’’ ٹھنڈک‘‘ کے آتے ہیں اور الثانی کا معنی ہے ’’دوسرا‘‘۔ یوں اس کا مجموعی مطلب بنتا ہے ’’دوسری ٹھنڈک‘‘۔جس زمانہ میں اس مہینے کا نام تجویز کیا گیا اس وقت عرب میں اس قدر سخت سردی پڑ رہی تھی کہ برتنوں میں پڑا ہوا پانی جم جاتا تھااور یہ اس سردی کا دوسرا مہینہ تھا،اس موسمی کیفیت کے پیش ِ نظر اس ماہ کا نام جمادی الثانی رکھا گیا۔
اس ماہ میں بہت سے تاریخی واقعات پیش آئے جس کی وجہ سے اس مہینے کو مسلمہ تاریخی حیثیت حاصل ہے اور یہ اہل ِ سیر اوراہل ِ تاریخ کی مباحث کا موضوع رہا ہے،لہٰذا سیرت و سوانح کی کتب کے معتبر حوالوں سے اس ماہ پیش آنے اہم معرکوں اورمعروف شخصیات کی وفات کا مختصر ذکر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں ہونے والا اہم ترین معرکہ ’’یرموک‘‘ ہے جو خلیفہ راشد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد ِ مبارک میں پیش آیا۔یہ جنگ مسلمانوں کیلئے تاریخی حیثیت رکھتی ہے ،اس جنگ کی کمان حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھی،مسلمانوں کے مدِ مقابل رومی فوج تھی۔ دریائے یرموک کے کنارے ہونے والی اس جنگ میں مسلمانوں نے جرأت و بہادری کے انمٹ نقوش چھوڑے۔رومی فوج مسلمانوں سے چار گنا زیادہ تھی اور ان کی طرف سے اس قدر سخت تیر اندازی ہوئی کہ تیروں میں سورج چھپ گیا ،لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے اسے پسپا کر کے روم پر فتح کے جھنڈے گاڑ دیے اور اس دور کی سپرپاور طاقت کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔
15 ہجری ماہ ِ جماد ی الثانی میں بصرہ شہر کی بنیاد رکھی گئی،یہ علاقہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد ِ زریں میں مسلمان فوج کے زیر ِ نگیں آیا تھا۔اس شہر کی آبادی کا سہرا حضرت عتبہ بن غزوان کے سر ہے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو یہ ذمہ داری سونپی کہ ایلہ نامی بندرگاہ کے قریب ایک شہربسائیں، امیر المومنین کی ہدایت پر عتبہ آٹھ سو آدمیوں کو لے کر روانہ ہوئے،یہ جگہ خالی میدان تھی، زمین کنکریلی تھی اور گردوپیش کہیں پانی اور سبزہ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔حضرت عتبہؓ نے مناسب جگہوں پر مکانات بنوا کر محلے آباد کیے،عوامی ضروریات کیلئے سرکاری عمارتیں تعمیر کروائیں۔یہاں کی نئی آبادی کی دینی ضروریات کیلئے باقاعدہ طور پر تعلیمی حلقے قائم کیے اور ماہر معلمین کا انتظام کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھوٹا سا قصبہ بہت بڑے شہر کی صورت اختیار کر گیا اوراس کا شمار بڑے شہروں میں ہونے لگا۔آج بھی اس شہر کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے اور امت کے کبار مفسرین، محدثین ،مؤرخین اور صوفیاء ِ کرام نے اس کی مردم خیز مٹی سے جنم لیا ہے۔
ماہ ِ جمادی الثانی میں جن جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وفات حسرت ِ آیات کے المناک سانحات پیش آئے ان میں ایک نام حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا ہے۔ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی اور قبیلہ بنو سلمہ کے چشم و چراغ تھے،بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔امام ابی حاتم رحمہ اللہ نے انہیں اصحاب ِ صفہ میں شمار کیا ہے، غزوہ تبوک میں جو تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیچھے رہ گئے تھے اور اس کی وجہ سے سب مسلمانوں نے پچاس دن تک ان سے سوشل بائیکاٹ کیے رکھا اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کا قرآن ِ کریم میں اعلان فرمایا ان میں ایک حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بھی تھے۔امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا شمار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص درباری شعراء میں ہوتا تھا،باختلاف ِ اقوال آپ رضی اللہ عنہ کی وفات چالیس ،پچاس یا اکیاون ہجری میں ہوئی۔
رسول ِ اکرم ﷺکے چچازاد بھائی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا سانحہ ارتحال بھی اسی ماہ میں پیش آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ پوری جماعت ِ صحابہ میں سب سے زیادہ قرآنی علوم کے ماہر تھے ،اسی بناء پر آپ رضی اللہ عنہ کو ’’رئیس المفسرین ‘‘ ’’ترجمان القرآن‘‘ اور حبر الامۃ‘‘کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب مسلمان شعب ِ ابی طالب کی قید کاٹ رہے تھے اس وقت ان کی پیدائش ہوئی، خلفاء ِ راشدین کے عہد ِ مبارک میں کئی بار ایر ِ حج مقرر کیے گئے۔ قرآنی علوم پر مہارت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کے فقیہ بھی تھے،ان کے حلقہ درس میں جلیل القدر صحابہ وتابعین شریک ہو کر کسب ِ فیض کرتے تھے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو انہی کی طرف رجوع فرماتے،عقلی کمال کا عالم یہ تھا خلفاء ِ راشدین کے ادوار میں انہیں مشیر کے عہدے پر فائز کیا گیا اور بہت سے اہم دینی امور میں ان کی رائے کے پیش ِ نظر فیصلے کیے گئے68 ہجری میں بعمر ستر سال آپ رضی اللہ عنہ نے دنیا سے رحلت فرمائی اور محمد بن حنفیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔
ماہ َ جمادی الثانی 22 ہجری میں مشہور صحابی حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے انتقال ِ پرملال کا واقعہ پیش آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ ایک درویش مزاج اور انتہائی سادہ زندگی گزارنے والے تھے،کسی شخص کا بلند مکان دیکھتے تو برہم ہو جاتے اور اس کو تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے کہ اتنی مختصر زندگی میں اتنی بڑی عمارتیں کیوں بناتے ہو،عبادت کا شوق اس قدر غالب تھا اس عظیم مقصد کیلئے اپنی تجارتی سرگرمیاں موقوف کر دیں۔مالی اعتبار سے بہت کمزور تھے لیکن خود دار تھے اور کسی کے سامنے دست ِ سوال دراز نہیں کرتے تھے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی تعلیم کیلئے مسجد میں مختلف حلقے قائم کر رکھے تھے،ہر دس افراد پر ایک حلقہ ہوتا تھا اور اس کا ایک نگران مقرر تھا جو انہیں دین کے مسائل سکھاتا تھا، مجلس کے آخر میں سوالات کی عام نشست ہوتی اور جس کو جو مسئلہ پوچھنا ہوتا پوچھ لیتا تھا۔حضرت عثمان ِ غنی رضی اللہ عنہ کے دور ِ خلافت میں کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے جان جان ِ آفریں کے سپرد کر دی۔