حفیظ جالندھری کی شاعر ی نالہ دِل بھی، نغمہ ورباب
تمام اصناف میں جو قبولِ عام اور شہرتِ دوام حفیظ کو نصیب ہوئی وہ کم ہی کسی کو ملتی ہے
’’شاہنامہ اسلام‘‘
حفیظ جالندھری کا ایک بڑا کارنامہ ’’شاہنامہ اسلام‘‘ کی شکل میں دنیائے شعر و ادب میں محفوظ ہے۔ یہ اگرچہ اسلامی تاریخ ہے اور واقعات جانے پہچانے ہیں مگر شاعری کا کمال یہ ہے کہ اس کے تقریباً تمام ٹکڑے قاری کے ذہن و دل پر اپنا عکس چھوڑ جاتے ہیں۔ دس ہزار اشعار پر مشتمل یہ مثنوی اردو میں اپنی مثال آپ ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں پیدا ہونے والے اردو شاعروں میں حفیظ جالندھری ایک اہم نام ہے۔ غزل، نظم، مثنوی، گیت، سلام وغیرہ تمام اصناف شاعری میں جو قبول عام اور شہرت دوام حفیظ کو نصیب ہوئی وہ کم ہی کسی کو ملی ہے۔ حفیظ کے اولین مجموعہ’’نغمہ زار‘‘ نے شعر و سخن کے قارئین کی توجہ جس طرح اپنی جانب کھینچی اس کی نظیر اردو شاعری میں اس سے قبل نہیں ملتی۔ ایک طرف سے یہ اردو شاعری میں بالکل نیا اور تازہ تخلیقی تجربہ تھا جس میں بڑی فنکاری کے ساتھ نظموں اور گیتوں کو ایک ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ اس مجموعہ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد دین تاثیر جیسی نابغۂ روزگار شخصیت نے کہا تھا ’’ میرے دل میں جو جگہ نغمہ زار کی نظموں کے لئے ہے وہ کسی اور کے لئے نہیں۔ نغمہ زار کے بعد حفیظ نے جو کچھ لکھا ہے وہ فن اور نفس مضمون کے اعتبار سے بلند تر ہے مگر جو سبک میری اور جو فرحت فزائی نغمہ زار کے الفاظ و معنی اور بحور میں ہے وہ اور کہیں نہیں‘‘۔ ڈاکٹر تاثیر کی رائے کس قدر درست ہے ہم اس کا اندازہ اس مجموعہ کی صرف ایک نظم’’ ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ سے بھی اچھی طرح لگا سکتے ہیں۔ اس نظم کے اشعار نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی تھی اور حفیظ کی وفات تک مداح ان سے اس نظم کو سنانے کی فرمائش کرتے رہے۔
حفیظ جالندھری نے ہم عصر غزل میں بھی اپنی جگہ بنائی۔ ان کی غزلوں کے نہ معلوم کتنے اشعار زبان زد خاص و عام ہیں۔ یہاں بھی وہی بے ساختگی، روانی اور نغمگی ملتی ہے جو ان کا طرہ امتیاز ہے۔ مگر یہ صحیح ہے کہ حفیظ کا اصل میدان نظم اور گیت ہے جواپنی شیر ینیت، نغمگی اور جادو بیانی سے ہمارے دامن دل کو کھینچتی ہیں۔ گیتوں کے حوالے سے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حفیظ نے گیتوں کو ایک نئی زندگی عطا کی اور صرف اردو یا ہندی الفاظ کو ہی نہیں برتا بلکہ فارسی آمیزگیت بھی لکھے۔ جہاں ایک طرف فارسی آمیز گیت ہیں وہیں دوسری طرف بچوں کے لئے سہل اور دلچسپ انداز کے گیت بھی ملتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حفیظ نے اتنے حوالوں سے شاعری کی ہے کہ پروفیسر مرزا احمد منور نے انہیں کئی روپ کا شاعر قرار دیا ہے اور انہیں شاعرِ اسلام حفیظ، شاعرِ نعت حفیظ، شاعر کشمیر حفیظ، شاعرِ فطرت حفیظ، شاعر شباب حفیظ، شاعرِ غزل حفیظ، گیتوں کا حفیظ، بچوں کا حفیظ کہا۔
ابوالاثرحفیظ جالندھری 14جنوری 1900ء میں پیدا ہوئے اور بقول خود سات برس کی عمر میں شعر موزوں کرنے لگے تھے۔ صہبا لکھنوی،(مدیر افکار،معروف شاعر)نے اس عمر کا ایک شعر نقل کیا ہے:
محمدﷺ کی کشتی میں ہوں گا سوار
تو لگ جائے گا میرا بیڑا بھی پار
اس امر سے قطع نظر کہ فنی معیار سے اس شعر کی کیا قدرو قیمت ہے اپنے اندر یہ بہت بڑی اہمیت رکھتاہے کہ سات برس کی عمر میں شعر موزوں کرنے کا فن حفیظ کو قسام ازل نے بخشا تھا۔ اس سے شعرو شاعری سے ان کے فطری رجحان کا پتہ چلتا ہے۔ حفیظ جالندھری کا انتقال 21 دسمبر 82ء کی شب میں لاہور میں ہوا۔ اس طرح ان کی شعر و شاعری کا عہد75 برسوں پر پھیلا ہوا ہے۔ حفیظ جالندھری نے اپنے انتقال سے پہلے ایک غزل کہی تھی جس کو ان کے عزیز دوست پروفیسر مرزا سوز نے نقل کیا تھا اور جو’’ بیسویں صدی‘‘ فروری 1983ء میں شائع ہوئی۔ اس غزل کا ایک شعر ہے:
ترے کرم کے معاملے کو ترے کرم پر ہی چھوڑتا ہوں
مری خطائیں شمار کر لے مری سزا کا حساب کر دے
پہلے شعر اور آخری غزل کے اس آخری شعر کے درمیان 75برسوں کا عرصہ پھیلا ہوا ہے۔ کم ہی فنکاروں کو فکر و فن کے موتی پرونے کیلئے اتنا عرصہ ملا ۔
1907ء میں جب حفیظ نے پہلا شعر بار گاہ رسالت ﷺ میں پیش کیا، تب سے تو نہیں مگر 1911ء سے جب انہوں نے ایک مشاعرے میں اپنی پہلی غزل سنائی جس کا مطلع ہے:
خواب میں دلدار کی تصویر ہم نے دیکھ لی
رات کو جاگی ہوئی تقدیر ہم نے دیکھ لی
تب سے ان کی شاعری برابر نقد و نظر کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ ناقدین کے نزدیک ان کی شاعری میں وہ سب کچھ ہے جن سے فنکاری عبارت ہے۔ پروفیسر احتشام حسین کی رائے ہے:’’ حفیظ نے اس جادو بھری سرزمین میں شاعری کا رس پیا، نغمہ سرانی کی، جھومے اور اپنی آواز سے دوسروں کو مست کرنے لگے۔ انہوں نے اردو شاعری کو تازگی بخشی، از سر نو اسے قلبی واردات اور جوان جذبات سے آشنا کیا۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کو اردو شاعری کا مداح یا نقاد نظر انداز نہ کر سکے گا۔
بہت سے لوگ انہیں صرف شاہنامہ اسلام کا شاعر سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جنہیں حفیظ کا نام صرف ایسی نظموں کے ساتھ یاد ہے جیسے ’’ اپنے من میں پریت بسا لے‘‘،’’ رقاصہ‘‘ اور ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘۔ کچھ ان کے طرز شعر خوانی کو ان کا سب سے بڑا کمال قرار دیتے ہیں، کچھ ان کی غزلوں میں جذبات کی عمومیت اور اظہار کی برجستگی پر فریفتہ ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اور کچھ نہیں اگر صرف ان تمام پسندیدگیوں ہی کو جمع کردیا جائے تو کیا ایک بلند پایہ شاعر کی بہت سی خوبیاں یکجا نہیں ہو جاتیں‘‘۔
حفیظ کی غزل نگاری کی بات کی جائے توبیسویں صدی کے آغاز میں پیدا ہونے والے اردو شاعروں میں حفیظ جالندھری اور اختر شیرانی بہت ہی مشہور، اہم اور مقبول نام رہے ہیں۔ اگرچہ دونوں کی اہمیت اور مقبولیت کا تعلق نظم نگاری سے ہے لیکن دونوں نے کثیر تعداد میں غزلیں بھی کہی ہیں۔21دسمبر 1982ء کو فوت ہونے والے حفیظ جالندھری کیلئے اعزاز کی بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا جو آج بھی بچے بچے کی زبان پر ہے۔
حفیظ جالندھری مختلف ناقدین کی نظر میں……
’’پڑھنے کا انداز مسحور کن،دلکش آوازپائی‘‘
(پروفیسر آل احمد سرور)
پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں: ’’جن شعراء نے اردوشاعری کو چمکایا ان میں سے ایک حفیظ بھی ہیں۔ ان کی ہلکی پھلکی عشقیہ اور رومانی نظمیں نوجوانوں میں بالخصوص بہت مقبول ہیں۔ پڑھنے کا انداز مسحور کن ہے۔ جگر کی طرح آواز نہایت دلکش پائی ہے۔ مشاعرہ لوٹ لینے کا خاص ملکہ ہے ۔حفیظ نے اردو نظم کے اسالیب کو وسعت دینے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ وہ نظم کی نئی نئی شکل پیدا کرنے کے استاد ہیں۔ ان میں بعض شکلیں دلاویز ہوتی ہیں‘‘۔
’’نغمہ زار اورسوز و ساز حفیظ کے کارنامے ‘‘
(فراق گورکھپوری)
فراق گورکھپوری نے فرمایا: ’’حفیظ کی شاعری نے جن خوبیوں کی وجہ سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا وہ ان کی نظموں کا سنگیت یا ترنم تھا۔ موسیقی اور شاعری، گیت اور نظم، ترانہ اور ادب کا ایسا میل پہلے دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ اگرچہ حفیظ کے بعد کچھ لوگوں نے گیت اور نظم، سنگیت اور شاعری کو ایک کرنا چاہا اور ایک حد تک وہ لوگ کامیاب ہوئے لیکن وہ حلاوت، وہ سریلا پن دوسرے لوگ پیدا نہیں کر سکے۔ ’’نغمہ زار‘‘ اور ’’سوز و ساز‘‘ میں حفیظ کے اس قسم کے کارنامے ہیں‘‘ ۔
’’ گیت کو ایک کشادہ مفہوم عطا کیا‘‘
(وزیر آغا)
وزیر آغا حفیظ جالندھری کے گیتوں سے متعلق یہ خیال رکھتے ہیں: ’’ اختر شیرانی کے مقابلے میں حفیظ جالندھری کے ہاں گیت کو ایک وسیع ترکینوس پر پھیلانے کا کام بھی ملتا ہے۔ یعنی اگرچہ حفیظ نے ایسے گیت بھی لکھے ہیں جن میں محبت کا ارضی پہلو اجاگر ہوا اور محبوب کا جسمانی و جود نگاہ کا مرکز بنا تاہم اس کے ہاں گیت کی محبت کو ایک کشادہ مفہوم عطا کرنے کی روشنی بھی ابھری ہے‘‘۔
حفیظ کے کچھ اشعار
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے
……
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
……
آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے
آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے
……
دل لگاؤ تو لگاؤ دل سے دل
دل لگی ہی دل لگی اچھی نہیں
……
کس منہ سے کہہ رہے ہو ہمیں کچھ غرض نہیں
کس منہ سے تم نے وعدہ کیا تھا نباہ کا
……
الٰہی ایک غم روزگار کیا کم تھا
کہ عشق بھیج دیا جان مبتلا کے لیے
……
مجھے تو اس خبر نے کھو دیا ہے
سنا ہے میں کہیں پایا گیا ہوں
……
بھلائی نہیں جا سکیں گی یہ باتیں
تمہیں یاد آئیں گے ہم یاد رکھنا
……
تصور میں بھی اب وہ بے نقاب آتے نہیں مجھ تک
قیامت آ چکی ہے لوگ کہتے ہیں شباب آیا
……
احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں
لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے
……
رنگ بدلا یار نے وہ پیار کی باتیں گئیں
وہ ملاقاتیں گئیں، وہ چاندنی راتیں گئیں
……
زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں
موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے
……