ایوان میں تبدیلی کی سرگوشیاں
آزاد جموں و کشمیر میں سردی ان دنوں زوروں پر ہے مگر ریاست کا سیاسی درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ قانون ساز اسمبلی میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف خواجہ فاروق احمد وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی ممکنہ تبدیلی کی مبینہ کوششوں کے درمیان پشاور پہنچ گئے جہاں انہوں نے وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈا پور سے ملاقات کی اور جماعت کی آزاد کشمیر شاخ کی پالیسی کے حوالے سے مشاورت کی۔
آزاد کشمیر کے اس گرم سیاسی موسم میں وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے اپنے اعصاب مضبوط رکھتے ہوئے مستعفی ہونے سے انکار کیا ہے ، دوسری جانب صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے بھی آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے مردہ سیاسی گھوڑے کو نئی زندگی بخشنے کیلئے اپنے خدمات پیش کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کی سیاست سے باخبر حلقے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو کس طرح معاف کرتے اگر وہ اس سیاسی جماعت کو زندہ کرنے کی حامی بھرتے جس کو ختم کرنے کیلئے ان کے والد مرحوم چوہدری نور حسین نے آزاد مسلم کانفرنس کو قائم کیا تھا۔ بلا شبہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے اپنے والد کی سیاسی میراث کا نہ صرف خیال رکھا۔بیرسٹر سلطان محمود چوہدری آزاد جموں و کشمیر کی سیاست میں ہمیشہ ٹرینڈ سیٹر رہے ہیں۔ اگر علاقے میں نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا جائے تو شاید وہ اس کو قبول کرنے کیلئے بھی تیار ہو جائیں، لیکن مسلم کانفرنس کی بحالی کے ساتھ ساتھ اگر انہیں اس کی قیادت بھی دی جائے تو وہ اس کو قبول کرنے کیلئے راضی نہیں ہوں گے۔ آزاد جموں و کشمیر میں قوم پرستوں کا نعرہ’’ کشمیر بنے گا خود مختار ‘‘ در اصل آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے نعرے ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ کے ردعمل میں سامنے آیا تھا اور ویسے بھی آزاد جموں و کشمیر کے اکثر تجزیہ کار اور سیاسی ماہر ین کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے کیلئے موزوں علاقہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو قرار دیتے ہیں، لیکن سیاسی مفادات کیلئے اس نعرے کو آزاد جموں و کشمیر میں متعارف کرایا گیا جو پہلے ہی آئینی طور پر نہ سہی لیکن عملاً پاکستان کا حصہ ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ صرف سیاسی مفادات کیلئے لگایا جا رہا ہے۔ اس وقت آزاد جموں و کشمیر کو پاکستان کے قریب لانے کی ضرورت ہے نہ کہ الگ سے پرانی یا نئی علاقائی جماعت قائم کر کے آزاد خطے کی عوام کو ایک اور سیاسی جال میں پھنسا کر اہلِ پاکستان سے دور کیے جانے کی۔ آزاد جموں و کشمیر میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی عوام میں جڑیں پکڑ چکی ہیں۔ ان کو اب کوئی نئی سیاسی جماعت ختم کر سکتی ہے اور نہ ہی آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی فعالیت سے ان کا ووٹ بینک کم کیا جا سکتا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کی عوام کو اس وقت قریب لانا ہے اور یہ کام صرف اس علاقے میں موجود قومی سیاسی جماعتیں ہی بہتر طور پر سرانجام دے سکتی ہیں۔ عالمی اور علاقائی سطح پر جاری سیاسی تبدیلیوں اور پانچ اگست 2019ء کے بعد آزاد جموں و کشمیر کے لوگوں کو پاکستان کے قریب کرنے کے حوالے سے قومی سیاسی جماعتوں کے کر دار کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ ہفتے متحدہ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے آزاد جموں و کشمیر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ساتھ ملانے والے راستوں پر دھرنے کے بعد بعض حلقوں کی طرف سے کہا گیا کہ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں۔ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے مگر انکار کیا اور کہا کہ ان کے خلاف تحریک اعتماد لاکر ان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک سیاسی کارکن ہیں اور وہ اسمبلی توڑنے کے بجائے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ جمہوری طریقے سے کریں گے۔موجودہ 53 رکنی قانون ساز اسمبلی میں پیپلزپارٹی 13 اراکین کے ساتھ پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کے بعد دوسری بڑی پارلیمانی جماعت ہے۔ مسلم لیگ( ن) کے پاس آٹھ ارکان اسمبلی ہیں اور مبینہ طور پر مہاجرین جموں سے تعلق رکھنے والے وزیر جنگلات اکمل سرگالہ جو پی ٹی آئی فارورڈ بلاک کا حصہ تھے بھی گزشتہ عام انتخاب میں پنجاب میں (ن) لیگ سے مل چکے ہیں۔ مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلزپارٹی کے دو ارکان کو ملاکر ان کے پاس کل 24 ووٹ آجائیں گے جبکہ وزیر اعظم کے انتخاب کیلئے 27 ووٹ چاہئیں۔ باقی تین ووٹ وہ آسانی سے فارورڈ بلاک سے توڑ سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے سابق صدر اور وزیر اعظم سردار یعقوب خان پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ہے اور ممکنہ طور پر وہ وزار ت عظمیٰ کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔ سردار یعقوب ایک سینئر سیاستدان ہیں ، تمام جماعتوں اور برادریوں میں قبولیت بھی ان کا ایک مثبت پوائنٹ ہے۔
بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ متحدہ عوامی ایکشن کمیٹی دیگر علاقوں کے بجائے راولاکوٹ ڈویژن میں زیادہ فعال ہے اور اس کو غیر فعال کرنے کیلئے سردار یعقوب خان موزوں رہنماہیں۔ پیپلزپارٹی کے صدر اور وزارت اعظمیٰ کے دوسرے مضبوط امیدوار چوہدری محمد یاسین ان کے مقابلے میں سخت گیر سیاستدان سمجھے جاتے ہیں اور ان کو وزیر اعظم بنانے سے شاید وہ مقاصد حاصل نہ ہوسکیں۔ ایوان کے اندر تبدیلی کی اس فضا میں مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر نے گزشتہ روز مظفرآباد میں اپنی جماعت کی سینئر لیڈر نورین عارف کی طرف سے دیے گئے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ آزاد کشمیر میں کسی بھی وقت عام انتخاب کا بگل بج سکتا ہے۔ انہوں نے جماعتی کارکنوں کو تیاری شروع کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ پیپلزپارٹی نے موجودہ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کو عدم اعتماد کی تحریک لاکر ہٹانے کا فیصلہ کیا تو وفاقی حکومت کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کے آٹھ اراکین کو جماعت کی مرکزی قیادت پیپلزپارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو ووٹ دینے کا پابند کر سکتی ہے کیونکہ وہ وفاق میں(ن) لیگ کی حکومت کی اتحادی ہے۔تاہم نئے وزیر اعظم کو منتخب کرنے کیلئے ووٹ دینے کے بعد (ن) لیگ اپوزیشن میں رہنے کو ترجیح دے گی۔