پیکر صدق و وفا کے امتیازی خصائص
سیرت صدیقؓ کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے جہاں ہم انہیں رفیق غار کے اعزاز سے بہرہ ور دیکھتے ہیں، وہاں بعد ازوفات رفیق مزار ہونے کی عظیم سعادت سے بھی آپ ؓ سرفراز دکھائی دیتے ہیں۔ آپؓ کی حیات مطہرہ میں کچھ خصائص ایسے نظر آتے ہیں جو پوری ملت اسلامیہ میں آپؓ کو امتیازی حیثیت بخشتے ہیں۔
مُسْلِم اوّل: جب سرورکونینﷺ نے اعلان نبوت فرمایا توسیدنا صدیق اکبرؓ بغرض تجارت یمن گئے ہوئے تھے۔ جب آپ ؓ وہاں سے واپس لوٹے تو سرداران قریش ابو جہل، عتبہ اور شیبہ انہیں ملنے کیلئے آئے اور دوران گفتگو تازہ خبر کے طور پر آپؓ کو بتایا کہ ابوطالب کے یتیم بچے محمدؐ بن عبداللہ نے نبی ہونے کادعویٰ کیا ہے۔ ہم تمہاری واپسی کے منتظر تھے تاکہ اس کی روک تھام کا کوئی پروگرام مرتب کیا جاسکے۔ یہ سن کو یوں معلوم ہوا کہ گویا یہ اڑتیس سالہ نوجوان اس خوشخبری کا پہلے ہی سے منتظر تھا۔ اپنے محبوب دوست کو ملنے کیلئے اس کے دل میں آتش اشتیاق بھڑک اٹھی۔ سرداران قریش کو رخصت کیا، خود بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر کلمہ شہادت پڑھا اور دولت اسلام سے بہرہ ور ہوگیا۔اس طرح آزاد مردوں میں اسلام قبول کرنے کی اوّلیت آپؓ کو نصیب ہوئی۔
مصدق اوّل: کفا ر مکہ ایک جگہ بیٹھے حضور پاکﷺ کے واقعہ معراج کے خلاف زہر افشانی کرنے کے بعد مسکن ابوبکرؓ کا رخ کرتے ہیں اور سیدنا صدیق اکبرؓ کو کہتے ہیں کہ تمہارا نبی کہتا ہے کہ میں راتوں رات آسمان کی سیر کر کے مکے واپس آگیا۔ ابوبکر ؓ نے یہ سن کر پوچھا کیا تم سے یہ باتیں رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا ہاں۔ اس پر زبان صدیق ؓ بلا تامل پکار اٹھی، اگر حضور ﷺ نے فرمایا ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ یوں مصدق اوّل ہونے کا شرف بھی آپ ؓ کے حصہ میں آیا۔
رفاقت سفر کا اعزاز: حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مکان پر تشریف لے جانا نبی پاک ﷺ کا صبح و شام کا معمول تھا ۔ ایک روز خلاف عادت دوپہر کے وقت سرکاردوعالمﷺ تشریف لے گئے۔ ابوبکرؓ اپنی فراست سے سمجھ گئے کہ آپﷺ کا بے وقت آنا بے وجہ نہیں ہو سکتا۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ ابوبکر ؓ رب ذوالجلال کی طرف سے مکہ چھوڑنے کی اجازت آگئی ہے۔ یہ سن کر آپ ؓ نے ملتجیانہ نگاہوں سے رخ انور کی طرف تکتے ہوئے عرض کی اور میری رفاقت یا رسول اللہﷺ۔ ارشاد فرمایا رفاقت کی بھی اجازت ہے۔
مرکب سرورکونینﷺ: ہجرت کی رات جب نبی کریم ﷺ صدیق اکبرؓ کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئے تو آقائے دوجہاں ﷺ نے نعلین مبارک اتار لئے اور پنجوں کے بل چلنے لگے۔ اس طرح حضور اکرمﷺ کے پاؤں مبارک زخمی ہو گئے۔ اپنے محبوب کو اس مشکل میں دیکھ کر صدیق اکبرؓ نے انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ اس طرح اللہ نے صدیق اکبرؓ کو مُرکب مُصطفیٰؐ بننے کا شرف عطا فرماکر بار نبوت کو اٹھانے کی حیران کن قوت سے نوازدیا۔
یارِ غارِ رسولﷺ: مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے پہلا مرحلہ غار ثور میں قیام تھا۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے غار کو اندر جاکر صاف کیا اس پر خطر جگہ پر صرف اور صرف سیدنا صدیق اکبرؓ کو صحبت سرکارﷺ کے انمول لمحات میسر آئے۔ ان ساعتوں کی عظمت کے سبب ہی تو آقائے دوجہاں ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے استفسار پر بتایا کہ حضرت عمرؓ کی نیکیاں آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں اور حضرت ابوبکرؓ کی غار ثور کی ایک رات کی نیکیاں حضرت عمرؓ کی ساری زندگی کی نیکیوں سے بھاری ہیں۔
مسجد اوّل کی زمین کی خریداری کاشرف: نبی پاکﷺ کے مدینہ تشریف آوری پر فرزندان توحید کھنچے چلے آئے اور ایک مرکز پر جمع ہونے لگے۔ نبی پاک ﷺ نے تعمیر مسجد کا حکم فرمایا۔ اس سلسلہ میں مدینہ کے دو یتیم بچوں کی زیر ملکیت زمین پسند فرمائی گئی۔ جسے اگرچہ وہ اور ان کے لواحقین بلا قیمت دینے پر مصر تھے تاہم رحمت عالم ﷺ نے یتیموں کا مال بلا قیمت لینا پسند نہیں فرمایا اور اس کی قیمت ادا کرنے کا شرف سیدنا صدیق اکبرؓ کو بخش دیا گیا۔
محافظ دربان رسولﷺ : حضرت علیؓ روایت کرتے ہیں کہ یوم بدر میں ہم نے تمازت آفتاب سے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کیلئے ایک سائبان بنا دیا۔ ہم نے کہا رسول اللہﷺ کے ساتھ کون رہے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مشرکین میں سے کوئی آپﷺ پر حملہ کردے۔ بس خدا کی قسم!سوائے ابوبکرؓ کے ہم میں سے کوئی قریب نہ گیا۔ وہ ننگی تلوار سے رسول کریمﷺ پر سایہ فگن رہے۔ جس کسی نے آپ ﷺ پر حملہ کیا ابوبکر ؓ اس پر حملہ آور ہوئے۔ جس خیمے میں سرکارﷺ کا قیام تھا اسی میں سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ ٹھہرے اور آپﷺ کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا۔