حقیر
چھک، چھک کرتی ٹرین اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ رات کے کوئی بارہ بجے ہوں گے فرقان بیگ کا تکیہ بنائے، چادر اوڑھے، نیم غنودگی کے عالم میں تھا۔
جب اسے محسوس ہوا کہ کوئی وزنی چیز اس کی ٹانگوں پر آ پڑی ہے۔ اس نے جلدی سے منہ کو چادر سے باہر نکالا کہ ذرا دیکھے تو معاملہ کیا ہے۔ اگلے ہی لمحے اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا کیوں کہ ایک بیس، بائیس سالہ نوجوان اس کے برتھ کے ساتھ ٹیک لگائے اپنا آدھے سے زیادہ دھڑ اس کی ٹانگوں پر رکھے گہری نیند کے مزے لے رہا تھا۔ فرقان کے تن بدن میں آگ سی لگ گئی۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنی ٹانگیں کھینچیں، جس کی وجہ سے نوجوان کو زبردست جھٹکا لگا۔ اس کا سر برتھ سے جا ٹکرایا۔ چوٹ تو نہیں لگی البتہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹا اور پھٹی پھٹی نظروں سے فرقان کو دیکھنے لگا۔ ’’تم سے ہزار بارہ سو کا ٹکٹ خریدا جا سکتا ہے لیکن سو پچاس مزید خرچ کرکے برتھ یا سیٹ نہیں بک کرائی جا سکتی۔ تم جیسے حقیر لوگ ہی دو پیسے بچانے کی خاطر اپنا اور دوسروں کا سکون برباد کرتے ہیں اور بھکاریوں کی طرح کسی کونے یا دروازے کے سامنے پڑے رہتے ہیں‘‘۔ فرقان اس نوجوان پر چڑھ دوڑا۔ وہ خاموشی کے ساتھ سر جھکائے ساری باتیں سنتا رہا۔ فرقان اس کی شرافت کو دیکھ کر دوبارہ بولا۔ ’’ خبردار! جو اَب میرے برتھ کے ساتھ ٹیک لگائی، سمجھے… ‘‘ فرقان نے کھا جانے والی نظروں سے اس نوجوان کی طرف دیکھا جواَب بھی سر جھکائے بیٹھا تھا اور چادر اوڑھ کر دوبارہ سو گیا۔ صبح اٹھا تو دن کے آٹھ بج رہے تھے۔ ریل گاڑی میں بھی چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ اس نے انگڑائی لی اور آس پاس کا جائزہ لینے لگا۔ اس کے سامنے والے برتھ پر تقریباً اسی سالہ ضعیف العمر شخص لیٹا ہوا تھا جو اس نوجوان سے باتوں میں مصروف تھا۔ نوجوان پر نظر پڑتے ہی رات والا واقعہ اس کے ذہن میں گھوم گیا۔ اس نے حقارت بھری نظر نوجوان پر ڈالی جو اس بوڑھے سے باتوں میں مشغول تھا ’’ حقیر لوگ‘‘ فرقان نے دل میں سوچا اور دوبارہ حقارت سے ناک سکیٹر لی۔
ادھیڑ عمر شخص جس نے نظر کا چشمہ لگایا ہوا تھا اور ایک ہاتھ میں بریف کیس تھاما ہوا تھا بابا جی سے مخاطب تھا۔’’ بابا جی! کھڑے ہو جائو، یہ ہمارا برتھ ہے‘‘ فرقان بھی ان کی طرف متوجہ تھا، اب فرقان کی حقارت غائب ہو چکی تھی۔’’بیٹھے رہیں بابا جی، اٹھنے کی ضرورت نہیں‘‘ بابا جی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ نوجوان بیچ میں بول پڑا’’ کیوں ضرورت نہیںاٹھنے کی؟‘‘ ادھیڑ عمر شخص بگڑتے ہوئے بولا۔ ’’ اس لئے جناب کہ یہ برتھ میرا ہے۔ یہ رہا ٹکٹ اور اس پر درج برتھ نمبر، آپ خود تسلی کر سکتے ہیں‘‘۔ نوجوان نے ٹکٹ ادھیڑ عمر شخص کو دکھاتے ہوئے کہا ’’تو کیا یہ برتھ نمبر20اور ڈبہ نمبر4 نہیں؟‘‘ ادھیڑ عمر شخص نے سوالیہ نظروں سے نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’ محترم یہ برتھ نمبر20ہی ہے مگر ڈبہ نمبر3ہے۔‘‘ نوجوان نے نرم لہجے میںجواب دیا۔’’ اوہ… معاف کرنا‘‘ ادھیڑ عمر شخص نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا اور آگے کی طرف بڑھ گیا۔ بابا جی بھی حیرت اور پیار سے اپنے محسن کو دیکھنے لگے جس نے ان پر ظاہر تک نہیں ہونے دیا تھا کہ یہ اس کا برتھ ہے اور ادھر فرقان مارے شرم کے پانی پانی ہو چکا تھا۔ اسے ایسا لگا کہ حقیر’’ نوجوان‘‘ نہیں بلکہ وہ خود ہے۔