مذاکراتی عمل میں بریک تھرو ہو گا ؟
ایک دوسرے کیلئے تحفظات کے باوجود آج سے حکومت‘ اس کے اتحادی اور پی ٹی آئی مذاکرات کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ مذاکراتی عمل سے توقعات تو یہی ظاہر کی جا رہی ہیں کہ یہ ملک کے سیاسی اور معاشی مستقبل کیلئے اچھا ثابت ہو گا لیکن دیکھنا ہوگا کہ اپوزیشن حکومت سے اور حکومت اپوزیشن سے کیا چاہتی ہے۔
آج کی میٹنگ اور اس میں سامنے آنے والے چارٹر آف ڈیمانڈ سے اس کا پتہ چل جائے گا۔ حکومتی ذمہ داران یہ تو واضح کر چکے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی ، نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات میں ملوث افراد کی رہائی ان کے بس میں نہیں اور یہ خالصتاً عدالتی معاملہ ہے۔ اس پر پی ٹی آئی کا موقف یہ ہے کہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر عدالتی کمیشن بننا چاہئے۔ حکومت اس مطالبہ کو اہمیت نہیں دیتی لیکن یہ ضرور کہا جا سکتاہے کہ جب مذاکراتی عمل شروع ہو گا تو مذکورہ واقعات اور ان کی تحقیقات پر بھی بات ہو گی۔ ان مذاکرات کا اتنا فائدہ تو ہواہے کہ سیاسی درجہ حرات میں کمی آئی ہے اور ایک دوسرے کے سیاسی کردار کو تسلیم کرتے ہوئے یہ ٹیبل سجی ہے۔ سیاسی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ جب سیاسی قیادتیں مل بیٹھتی ہیں تو ایک دوسرے کو سننے سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور بڑا بریک تھرو نہ بھی ہو تو بات آگے ضرور چلتی ہے۔ اس مذاکراتی عمل میں سیاسی فریقین کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ بھی ایک فریق ہے ، جس کی وجہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات ہیں جن کے حوالہ سے عام تاثر یہ ہے کہ ان واقعات خصوصا ًنو مئی کے واقعہ پر کمپرومائز کیلئے وہ تیار نہیں۔ آرمی ایکٹ کے ذریعہ سزاوں کا عمل بھی شروع ہوچکاہے تو اس کی براہ راست متاثرہ جماعت تو پی ٹی آئی ہے۔اس صورتحال میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مذاکراتی عمل نتیجہ خیز ہو گا اور حکومت پی ٹی آئی کو کوئی یقین دہانی کرانے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں۔ مذکورہ مذاکراتی عمل میں پُل کا کردار ادا کرنے والے سپیکر سردار ایاز صادق سمجھتے ہیں کہ ان جماعتوں کے ذمہ داران کا آپس میں بیٹھنا نیک فال ہے مگر وہ خود کو سہولت کارقرار دیتے ہوئے اس حوالہ سے حتمی رائے دینے سے گریزاں ہیں۔ مذکورہ مذاکراتی عمل کے دوران ایک بیرونی فیکٹر بھی کارفرماہے جو غیر محسوس انداز میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے سرگرم نظر آ رہاہے۔ پی ٹی آئی بھی اسی امریکہ سے توقعات کا اظہار کرتی نظر آ رہی ہے جسے وہ اپنی حکومت کے خلاف سازش کا ملزم قرار دیتی تھی۔ مگریہ دباؤ جس حد تک کارگر ہو گا اس کا اندازہ اس سے لگایاجا سکتاہے کہ نو مئی کے حوالہ سے سزائیں سنانے کا عمل تیز ہواہے۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو پاکستان امریکہ سے اچھے تعلقات کا خواہاں تو رہاہے مگر امریکہ پاکستان کو ڈکٹیٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
امریکہ پاکستان کے نیوکلیئر اور میزائل پروگرام کو ٹارگٹ کر کے نفسیاتی دباؤ کا باعث بن رہاہے مگر اس کو اس کا جواب مل گیا ہوگا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی جانب سے آنے والا دباؤ پی ٹی آئی کو مشکوک بنا رہاہے کہ اسے اتنی پریشانی کیوں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بعض ذمہ داران اس حوالہ سے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ہمیں امریکہ یا کسی اور ملک کے دباؤ سے غرض نہیں، ہم مقدمات کا سامنا کریں گے۔ دوسری جانب مذاکراتی عمل بارے حکومت کو دباؤ میں رکھنے کیلئے بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر کہا جارہاہے کہ مذاکرات پر حکومتی سنجیدگی دیکھنے کیلئے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن حتمی ہے۔ کیا حکومت اس حوالہ سے دباؤ میں آئے گی، لگتا نہیں بلکہ حکومت اپوزیشن کے دباؤ سے باہر نظر آ رہی ہے۔ حکومتی ذمہ داران کے بیانات سے ظاہرہے کہ مذاکرات ان کی مجبوری نہیں۔مطلب کہ مذاکراتی عمل صرف پی ٹی آئی کی کمزوری ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت مذاکراتی عمل میں اپوزیشن کی کس طرح دلجوئی کرتی ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر کوئی یقین دہانی نہیں کرائے گی۔ دوسری جانب پوزیشن میں بھی ان مذاکرات کا اچھا مستقبل نظر نہیں آتا۔ بانی پی ٹی آئی کے بیانات سے لگتاہے کہ وہ اتمام حجت کر رہے ہیں۔ حکومتی حکمت عملی کو دیکھا جائے تو وہ بھی سیاسی مذاکراتی عمل کے بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دیتی نظر آ رہی ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ وہ معاشی ٹیک آف کرگئی تو اس کی مقبولیت بحال ہو گی اور سیاست بھی چلے گی۔ اس حوالہ سے ’ اڑان پاکستان پروگرام‘ کو ان کے عزم کا محور قرار دیا جا سکتاہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی یکسوئی اور سنجیدگی بھی مثالی ہے۔ لگتا ہے کہ وہ پنجاب کی طرح مرکز میں بھی خود کو منوانے کیلئے ملک کو آگے چلانے اور دنیا میں پاکستان کو اس کا کھویا مقام دلانے کے ایجنڈا پر گامزن ہیں۔ مگر اس کیلئے سیاسی استحکام اور امن لازم ہے۔ کیا ایسا ممکن ہو پائے گا؟ 2025 اس حوالے سے اہم ہو گا۔ سیاسی استحکام تب ہی یقینی ہو گا جب حکومت اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلے۔ وزیراعظم ملک کے معاشی مستقبل کے حوالہ سے چارٹر آف اکانومی کے خواہاں ہیں مگر اس کیلئے سیاسی قوتوں کو ساتھ لینا ہو گا۔ آج بھی میثاق معیشت ہوجائے تو ہمارے آدھے مسائل حل ہو جائیں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اگر مشکل حالات میں معیشت کو خطرناک زون سے نکال سکتے ہیں تو سیاسی محاذ پر بھی سب کو ساتھ لے کر چلنے کیلئے انہیں کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ناممکن ہے۔ ’’اڑان پاکستان‘‘ کی اڑان تبھی ممکن ہے جب سیاسی محاذ پر ٹھہراؤ آئے، اور یہ ناممکن نہیں۔ اپوزیشن زور آزمائی اور احتجاجی آپشنز بروئے کار لانے کے بعد حکومت کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہوئی ہے۔ اپوزیشن حکومت کی طرف دیکھ رہی ہے تو حکومت کو بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سیاسی طرز عمل اختیار کر لیا جائے تو 2025ء میں سیاسی و معاشی استحکام آ سکتاہے۔
ادھر پنجاب میں وزیر اعلیٰ مریم نوازکی حکومت اپنی کارکردگی کے حوالہ سے بڑی متحرک نظر آ رہی ہے۔ہر آنے والے دن وزیر اعلیٰ مریم نواز کسی پراجیکٹ کا آغاز کرتی دکھائی دیتی ہیں مگر انہیں اپنے پراجیکٹس کے حوالہ سے ایک منظم مانیٹرنگ سسٹم بھی بنانا چاہیے اور دیکھنا ہو گا کہ جن مقاصد کیلئے یہ پراجیکٹس شروع کئے گئے وہ پورے ہو رہے ہیں؟ وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے حکومت پنجاب کی سالانہ کارکردگی اور پراجیکٹس بارے میڈیا کو بریف کیا ہے اور اگر ایک سال میں مفاد عامہ میں اتنا کچھ کیا جاسکتاہے تو پنجاب میں ان کی جماعتی گرفت زیاد مضبوط نظر آنی چاہیے۔ حکومتی کارکردگی کی اپنی اہمیت ہے مگر سیاسی حیثیت اگر مضبوط ہو تو کوئی دوسری قوت چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی، لہٰذا اپنی جماعت پر بھی انہیں توجہ دینا ہو گی اور اپنے اراکین ِاسمبلی کو اعتماد میں لے کر چلنا ہو گا۔