سوء ادب :اونہوں رب دیاں رکھاں
چار بولیوں اوراپنی ایک پنجابی نظم سے آغاز کرتے ہیں ۔ ساڈے داج نہ پورے ہوئے ڈولیاں نوں گھُن لگ گئے(فقیر بخت)
انج بدلے دلاں دے جانی
موسماں نے کن پھڑ لئے
(ارشاد سندھو)
اساں سفنے کراؤنے ساوے
توں رت لے کے آجا بالما
( افضل ساحر)
اسیں تھانیاں کچہریاں رل گئے
سجناں نے صلح کرلئی
(افضل عباس)
جس دن دی اوس مجی ملی
میرے دھخدے پتر ساوے
میرے قدمیں وِچھے کھالیوں
کوئی ورولا کھہہ اڈا وے
میرے سالِیں بدھے مڈھ تھیں
کوئی سِنے چھوڈے لاھوے
مینہ منگاں نہ میں بدل منگاں
منگ ایہا من بھاوے
اک دھوڑ اوڈاوندا نیلی چڑھیا
جھوک سجن تھیں آوے
تے آکے ظفر اقبال فقیر نوں
کوئی خیر دی خبر سنا وے!
انگارے
(مدیر سید عامر سہیل )
یہ جریدہ اپنے پہلے ادوار میں کافی دھومیں مچا چکا ہے اور یہ اِس کے تیسرے دور کا نیا شمارہ ہے جو مثالی پبلیکشنز فیصل آباد نے شائع کیا ہے اور اِس کی قیمت 150 روپے فی شمارہ ہے ۔
اداریہ سوشل میڈیا کی صورتحال کے حوالے سے ہے۔ مضمون نگاروں میں خالد محمود خان،ڈاکٹر خرم شہزاد اور ڈاکٹر مسرت بانو ہیں،ناول کا ایک باب معروف شاعر غلام حسین ساجد کے قلم سے ہے ،ڈاکٹر شگفتہ حسین نے چے خوف کی کہانی کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ اِس کے علاوہ خلا ،سوال اور مزاحمت کے عنوان سے ابوبکر سلطان کا مضمون ہے۔ اس کے بعد نوبیل لاریٹ اینی ارنوکا خطبہ ہے جس کا ترجمہ ڈاکٹر دائود راحت نے پیش کیا جبکہ قمر اجنالوی کا خاکہ ڈاکٹر عبدالکریم خالد کے قلم سے ہے۔ ابا خان اور اماں حجانی کے عنوان سے لیاقت علی کی تحریر بھی ہے۔’’چراغ بجھتے چلے جار ہے ہیں‘‘سلسلہ وار مدیر سید عامر سہیل کی تحریر ہے جبکہ شعر و نغمہ کے عنوان سے ڈاکٹر ذیشان اطہر کی نو غزلیں ہیں ۔
ذیشان اطہر کی شاعری کا ایک اپنا بانکپن ہے۔الفاظ کا انتخاب اور استعمال بڑی خوبی او رہنر مندی سے کرتے ہیں اور انہوں نے جدید لہجے کے غزل گوئو ں میں اپنا ایک مقام پیدا کر لیا ہے اور بہت روشن مستقبل اِن کا منتظر ہے۔ غزل کے زورہ زوری اور شورہ شوری میں اپنی انفرادیت قائم کرنا ہی اصل کام ہے جو ذیشان اطہر نے کر دکھایا ہے اور جس کی صرف داد ہی دی جاسکتی ہے اِس دعا کے ساتھ کہ وہ یہ سلسلہ کسی خوبصورتی کے ساتھ جاری رکھیں گے ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں ہمیشہ اِن کے ساتھ رہیں گی ۔اب آخر میں ذیشان اطہر کی یہ غزل !
غزل
یہ چھابڑی مری چلتی دُکان ،سر پہ رہے
یہ ہاتھ بھر کا سہی سائبان ، سر پہ رہے
بھلاکے سنگِ ستم رقص کرنے والی زمیں
یہ چاہتی ہے صدا آسمان سر پہ رہے
میں عین وقت پہ کرتا تھا ہر ضروری کام
تمام عمر مرے امتحان سر پہ رہے
عجب تھا کھیلنا، دیوارِ یار سے ہولی
یہ زخم دل پہ لگے تھے،نشان سر پہ رہے
میں لے سکا نہ کسی بات کا غلط مطلب
کہ وہ جہاں بھی ملا ،ترجمان سر پہ رہے
خوشی کو دیکھتے گزری ہے چور نظروں میں
کہ دو فرشتے نہیں،پاسبان سر پہ رہے
پھٹے لباس میں پھیری لگانے والوں کے
ہمیشہ قیمتی کپڑوں کے تھان سر پہ رہے
اڑا نہ دیں تری گردن ،یہ تاج کی خاطر
محل میں لشکری آئیں تو دھیان سر پہ رہے
ہما کی کھوج سے میں باز آنے والا نہیں
بھلے سے چِیل کی ہر دم اڑان سرپہ رہے
عجیب بوجھ ہے ذیشان غم کی گٹھڑی کا
اتر بھی جائے تو اس کی تھکان سر پہ رہے