حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اور اہل اسلام
اللہ تعالیٰ نے جن انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ان میں ایک مبارک نام حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا بھی ہے۔ اہل اسلام کے ہاں آپ علیہ السلام قابل احترام نبی و رسول ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال 25 دسمبر کو عیسائی لوگ آپ کی پیدائش سے منسوب کرتے ہیں اور Merry Christmas کے نام سے عید مناتے ہیں (مسلمانوں کو اس موقع پر اس کی مبارک باد نہ دینی چاہیے اور نہ ہی لینی چاہیے)۔ اس موقع پر اہل اسلام بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن وسنت کی روشنی میں بنیادی حقائق و نظریات جاننا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے مختصر مگر جامع مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نانا کا نام عمران ہے۔آپؑ کے نام سے موسوم قرآن کریم میں سورہ آلِ عمران ہے۔ سابقہ انبیاء علیہم السلام کی شریعت میں لوگ اپنی اولاد میں سے کسی ایک بیٹے کو دین کے لیے وقف کردیا کرتے تھے۔ان کی شریعت میں یہ جائز تھا باقی بیٹے دنیا کے کام کاج کرتے جبکہ ایک بیٹے کوخالص دین کے لیے وقف کر دیتے۔ حضرت عمرانؑ کی بیوی نے بھی اللہ تعالیٰ سے ایسی ہی سے منت مانی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم نہایت پاکباز، نیک، زاہدہ و عابدہ خاتون تھیں۔ارشاد ربانی ہے ’’اور وہ وقت بھی قابلِ تذکرہ ہے کہ جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبولیت بخشی ہے، پاکیزگی عطا کی ہے اور(اس زمانے کی )دنیا بھر کی خواتین میں منتخب فرما کر فضیلت بخشی ہے۔(اس لیے) اے مریم!آپ اپنے رب کی اطاعت کرتی رہیں،اپنے رب کے حضور سجدہ کرتی رہیں اور رکوع کرتی رہیں ان لوگوں کے ساتھ جو رکوع کرنے والے ہیں۔(سورہ آل عمران: 43،42)
حضرت مریم کی کرامت
حضرت مریم اپنے خالو حضرت زکریا علیہ السلام کی زیرِ کفالت تھیں۔ایک کمرہ تھا وہاں حضرت مریم کی رہائش رکھی گئی، آپ دعوت وتبلیغ کے لیے تشریف لے جاتے واپس آ کر کھانا وغیرہ دیتے ۔ ایک بار حضرت مریم جس کمرے میں تھیں ا س کمرے کا جب دروازہ کھولا تو سامنے تازہ پھل نظر آئے، جن پھلوں کا وہ موسم نہیں تھا۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے تعجب سے پوچھا:مریم دروازے پہ تالا لگا ہے، یہ پھل کہاں سے آئے؟ حضرت مریم نے جواب میں فرمایا:یہ اللہ کی طرف سے آتے ہیں۔
حضرت مریم کو بچے کی خوشخبری
مفہوم آیات: ’’فرشتے نے جواب دیا: میں تو آپ کے رب کا بھیجا ہوا ایک فرشتہ ہوں اور اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ کو(نسب، عادات و اخلاق کے اعتبار سے )پاکیزہ لڑکا دوں۔ مریم نے ازراہِ تعجب کہا کہ مجھے لڑکا کیسے پیدا ہوگا حالانکہ(میں نے اس کے جائز اسباب اختیار نہیں کیے یعنی) مجھے کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اور میں نے (اس کے ناجائز اسباب بھی اختیار نہیں کیے یعنی)میں بدکار عورت نہیں ہوں‘‘(سورہ مریم:20،19)
مفہوم آیات:حضرت مریم کو حمل ٹھہر گیا اور( جب بچے کی ولادت کا وقت قریب آیا تو)وہ اس کو لیے ہوئے لوگوں سے دور الگ مقام پر چلی گئیں۔ پھر درد زہ(زچگی کے درد)کی وجہ سے کھجور کے درخت کی طرف آئیں اور کہا: اے کاش!میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور مجھے ایسا بھلا دیا جاتا کہ کسی کو کچھ یاد ہی نہ رہتا(سورہ مریم:23،22)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت
مفہوم آیات:پھر مریم اپنے بیٹے عیسیٰ کو گود میں لیے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں قوم کے لوگوں نے کہا اے مریم!تم نے بہت بڑی غلط حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن نہ تیرے والد برے آدمی تھے اور نہ ہی تیری والدہ کوئی بدکار عورت تھی۔ مریم نے(چپکے سے )بچے کی طرف اشارہ کیا(کہ مجھ سے نہیں بلکہ اس نومولود بچے سے پوچھوجس پر )وہ لوگ کہنے لگے: بھلا ہم ایسے بچے سے کیسے پوچھ تاچھ کر سکتے ہیں جو ابھی گود میں ہے۔ (سورہ مریم:27تا 29)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ابتدائی گفتگو
مفہوم آیات:وہ بچہ خود ہی بول اٹھا کہ میں اللہ کا خاص بندہ ہوں اس نے مجھ کو کتاب(انجیل)دی ہے اور اس نے مجھ نبی بنایا۔ اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت انسان بنادیا ہے(یعنی مخلوق خدا کو مجھ سے دین کا نفع پہنچے گا)اور جب تک میں اس دنیا میں زندہ رہوں اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے، اور مجھ کو میری والدہ کا خدمت گزار بنایا ہے، مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔اور مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی ہے جس دن میں پیدا ہوا جس دن مجھے موت آئے گی اور جس روز میں(قیامت کے دن زندہ ہونے کی حالت میں)دوبارہ اٹھایا جاؤں گا۔ یہی ہیں عیسیٰ بن مریم جس میں لوگ جھگڑا کر رہے ہیں میں اس سے متعلق بالکل سچی بات کہہ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی شان کے قطعاً یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے بلکہ وہ اس سے بالکل ہر طرح سے پاک ہے۔ وہ جب کوئی کام کا ارادہ فرماتا ہے تو بس حکم دیتا ہے کہ ہو جا!تو وہ کام اسی وقت ہو جاتا ہے۔ یقینا میرا اور تم سب کا پروردگار اللہ ہے اس لیے اسی ہی کی عبادت کرو یہی(دین پر چل کر جنت جانے کا)سیدھا راستہ ہے۔(سورہ مریم:30 تا 36)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات
مذکورہ بالا گفتگو سے جو باتیں سمجھ آتی ہیں،وہ یہ ہیں:
٭…حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ اللہ کے بیٹے نہیں۔ یعنی اس میں عقیدہ ابنیت اور عقیدہ اُلوہیتِ مسیح کے نظریے کی واضح تردید ہے۔
٭…حضرت عیسیٰ علیہ السلام صاحبِ کتاب نبی ہیں۔
٭…حضرت عیسیٰ علیہ السلام مادر زاد نبی ہیں۔
٭…حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وجود مبارک بہت برکتوں والا ہے۔)جس پر ہم ان شاء اللہ قدرے تفصیل سے آئندہ چل کر بات کریں گے کہ قرب قیامت آپ کی برکات کا ظہور کیسے ہوگا؟
٭…حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز، روزہ(مراد تمام احکام خداوندی ہیں)کے پابند ہیں۔ آپ الہ نہیں ہیں کیونکہ الہ کسی اور کے حکم کا پابند نہیں ہوتا۔
٭…حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے خدمت گزار رہے ہیں۔ صرف والدہ کی بات فرمائی کیونکہ آپ بغیر والد کے تھے اس لیے ان کا ذکر نہیں فرمایا۔
٭…حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فرمان سے معلوم ہوا کہ والدہ کی خدمت نہ کرنے والا سرکش اور بدبخت ہوتا ہے۔
٭…حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدائش سے لے کر روز محشر تک سراپا سلامتی ہیں۔ پیدائش کے وقت اپنی بے گناہ ماں کی صفائی بیان کر کے، لوگوں کے جھگڑے کا حل پیش کر کے، عقائد و نظریات کو بیان فرما کے، اَخلاق و آداب سکھلا کے، انجیل کے ذریعے احکامات سکھلا کے پہلے بھی سراپا سلامتی رہے اور قُرب قیامت نازل ہو کر تمام فتنوں سے اس امت کو محفوظ فرما کے واقعی آپ سراپا سلامتی کا حق ادا کریں گے۔
٭…حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود کو عیسیٰ بن مریم فرما کر عصمت نبوت کی دلیل ذکر فرمائی ہے وہ اس طرح کہ نبوت اور زنا والا نسب دونوں ایک ساتھ اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔نبی کا نسب اگر اخلاقی طور پر عیب والا ہو تو یہ بات عقیدہ عصمتِ نبوت کے خلاف ہے۔ اس لیے فرمایا کہ میرے نسب پر طعن نہ کرو میں واقعی ’’ابنِ مریم‘‘ ہوں۔
٭…حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عقیدہ توحید کی نزاہت و پاکیزگی کو بیان فرما کر اپنے ’’ابن اللہ‘‘ ہونے کی تردید کی ہے۔
٭…حضرت عیسیٰ علیہ نے اپنے ماننے والوں کو خالص توحید کا سبق دے کر صرف اسی ذات کی عبادت کرنے کاحکم دیا ہے اسی کو جنت جانے کا سیدھا راستہ قرار دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام انبیاء کرام کی مشترکہ دعوت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین