کراچی میں دھرنے مصیبت بن گئے
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے عوام پر گزشتہ ایک ہفتہ بڑا بھاری گزرا۔ تعمیراتی کاموں کے نام پر پہلے ہی شہر جگہ جگہ سے کھدا پڑا ہے اور راستے بند ہیں، رہی سہی کسر دھرنوں نے پوری کردی۔ درجن بھر سے زائد مقامات پر دھرنے دیے گئے، آنے جانے والی دونوں سڑکوں کو بند کردیا گیا، ٹریفک پولیس نے متبادل ٹریفک روٹ بھی جاری کیا لیکن شہر میں ٹریفک کی جو صورتحال ہے اس سے گھنٹوں ٹریفک جام معمول رہا۔
پیر کی شام پولیس چیف کراچی جاوید عالم اوڈھو نے مغرب کے بعد دھرنے ختم کرانے کا اعلان کیا لیکن پھر ترجمان کا بیان آگیا کہ پولیس چیف کا مطلب دھرنے ختم کرانا نہیں تھا، لیکن منگل کی صبح اچانک پولیس ایکشن میں آگئی اور بزور قوت کئی مقامات سے دھرنوں کو ختم کرا دیا۔ کچھ مقامات پر پولیس کو پتھراؤ کا سامنا بھی کرنا پڑا، پولیس نے بھی آنسو گیس پھینکی اور پتھراؤ کیا۔ پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔پرُامن احتجاج ہر ایک کا حق ہے لیکن عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوئی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔ پولیس کو بھی مظاہرین کے خلاف کارروائی کے دوران اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہیے۔ کراچی میں دھرنوں پر رکن قومی اسمبلی مرزا اختیار بیگ کا کہنا تھا کہ پارا چنار واقعہ کا سب کو افسوس ہے لیکن کراچی کے شہریوں کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے، پرامن دھرنے کی اجازت لی گئی تھی اور اس سے تجاوز کیا گیا۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سالِ نو پر غیر ذمہ دارافراد نے کراچی میں ہوائی فائرنگ کی جس سے دو خواتین سمیت دو درجن سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ ہر سال ایسے واقعات پیش آتے ہیں لیکن افسوس ہے ان لوگوں پر جو ہوائی فائرنگ کرتے ہیں اور نشانہ بے بس عوام بنتے ہیں۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی دنیا بھر میں منائی جاتی ہے لیکن سندھ میں جگہ جگہ اجتماعات کے ساتھ مرکزی تقریب گڑھی خدا بخش میں ہوتی ہے۔ اس بار خطاب کے دوران بلاول بھٹو زرداری کا لہجہ واضح طور پر تلخ تھا۔ انہوں نے کہا کہ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نہ سلیکٹڈ ہیں اور نہ فارم 47والے۔ حکومت پر واضح کیا ہے کہ اسے یک طرفہ فیصلوں کا مینڈیٹ نہیں ملا اور نہ ہی وہ اس پوزیشن میں ہے، سیاسی استحکام کیلئے فیصلوں میں اتفاق رائے ضروری ہے۔ انہوں نے حکومت سے وعدوں کی پاسداری نہ کرنے کا بھی شکوہ کیا۔ البتہ ان کا یہ کہنا اہمیت کا حامل ہے کہ عمران خان تو بہانا ہے پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام نشانہ ہے، یعنی انہوں نے کم از کم اس نکتے پر حکومت کی حمایت کی۔ دوسرے روز نیوز کانفرنس میں انہوں نے مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوے کی بات کی اور کہا کہ مہنگائی میں کمی کے اثرات عوام تک نہیں پہنچ رہے۔ کراچی کے حالات سے تو سب واقف ہیں لیکن ریڈ لائن پراجیکٹ نے عوام کی چولیں ہلا دی ہیں۔ پراجیکٹ ہے کہ مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ یہی حال مصروف علاقے کریم آباد کا ہے کہ جہاں انڈرپاس بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ کوشش کاغذات میں تو ڈیڑھ دو سال سے جاری ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ صدیاں بیت گئیں۔ جب یہ پتا چلا کہ اسلام آباد میں 45دن میں انڈر پاس بن گیا اور افتتاح بھی کردیا گیا تو بڑی خوشی ہوئی کہ چلو کہیں کے عوام تو خوش ہیں۔ البتہ ریڈلائن کی صورتحال سے صوبائی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے رکن اور اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی خوش نہیں، کہتے ہیں کہ ریڈ لائن پراجیکٹ مکمل نہ ہونا حکومتی نااہلی ہے، شہریوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے، میئر کراچی بھی شرمندگی کا اظہار کرچکے ہیں لیکن شرمندگی کے بجائے منصوبہ مکمل کیا جانا چاہیے۔علی خورشیدی کے الزامات کا جواب وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے یوں دیا کہ ریڈ لائن بی آر ٹی پر دن رات کام جاری ہے، فنڈز کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ، جس کا دل چاہے دنیا کی کسی بھی فرم سے منصوبے کا آڈٹ کرالے، سندھ حکومت کی جانب سے کوئی رکاوٹ یا تاخیر نہیں، اگر تاخیر ہوئی تو اس کی ذمہ داری سابق نگران حکومت پر عائد ہوتی ہے۔انہون نے کہا کہ کراچی کے لیے اگلے سو سال کی منصوبہ بندی کے لحاظ سے منصوبے بن رہے ہیں۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ صرف بسوں کے لیے ٹریک بنانا سو سالہ منصوبہ ہے؟ اس وقت کراچی کا حال دیکھیں تو لگتا ہے کہ کوئی کھنڈر ہے، سڑکیں، سیوریج کا نظام، بجلی، گیس کچھ بھی مناسب نہیں۔ سڑکوں پر بجلی کے پول دیکھیں تو لگتا ہے کہ تاروں کا جال فضا میں پھیلا ہوا ہے۔ سب کی خواہش ہے کہ شہر صاف ستھرا اور ترقی یافتہ نظر آئے لیکن حکومتی غیر سنجیدگی کچھ اور ہی کہتی ہے۔
ادھرسجاول میں پولینڈ کے سیاح جوڑے کو کچھ روز قبل لوٹ لیا گیامگر پولیس ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کرسکی‘ البتہ پولیس کی جانب سے سیاح جوڑے کی دلجوئی کی گئی اور کئی افسران کو معطل بھی کیا گیا مگر اس قسم کے واقعات سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ پولیس اور حکومت کو ایسا نظام بنانا چاہیے جس سے کم از کم غیرملکیوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ کراچی میں 2024ء میں 482 افراد مختلف حادثات میں جاں بحق ہوئے، ان میں آئل ٹینکر سے 10، ٹرک سے 71، واٹر ٹینکر سے 51 اور ٹریلر سے 69، مسافر بسوں سے 48 اور ڈمپر سے 32افراد مارے گئے۔ جاں بحق افراد میں زیادہ تر موٹرسائیکل سوار تھے۔ حادثات میں بڑی گاڑیوں کی جہاں غلطی ہوتی ہے وہیں موٹرسائیکل سوار بھی اکثر غلطی کرتے ہیں۔ قانون پر عمل کی بات کریں تویہ صرف بڑی گاڑیوں پر عائد نہیں ہوتی، چھوٹی گاڑیوں اور موٹرسائیکل سواروں کو بھی اس کا پابند بنایا جانا چاہیے۔