ذہین سوداگر
بہت پہلے کی بات ہے۔ ایک ظالم بادشاہ تھا۔اس کا رویہ اپنی سلطنت کے لوگوں کے ساتھ بے حد ظالمانہ تھا۔ وہ ہمیشہ نت نئے طریقوں کی تلاش میں رہتا جن کے ذریعے لوگوں سے ٹیکس جمع کر سکے ۔ بادشاہ ہر وقت ایسے لوگوں سے گھرا ہوا رہتا، جو اس کے غلط کاموں کی تعریف کرتے اور جو لوگ اس کے غلط کاموں کی نشاندہی کرتے ان کو ناپسند کرتا تھا۔ اس کی بادشاہی میں ایک بہت ذہین سوداگر تھا اور بادشاہ اس کو بہت ناپسند کرتا تھا۔
ایک دن سوداگربادشاہ کی عدالت میں حاضر تھا اور بادشاہ کے ساتھ بحث کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’ایک شخص اپنی زندگی کو پورا کر سکتا ہے،جب تک وہ اپنے ذہن کا استعمال کرے‘‘۔ سوداگر کی یہ بات سننے کے بعد بادشاہ بہت ناراض ہوا، اور حکم دیا کہ سوداگر اور اس کے خاندان کوایک مہینے کیلئے اصطبل میں بغیرکوئی کام کیے رہنا پڑے گا، اور اس مہینے کے آخر میںصرف اپنے ذہن کا استعمال کر کے ایک ہزار سونے کے سکے جمع کر کے بادشاہ کو دینے ہوںگے۔
سوداگر کے پاس بادشاہ کے حکم کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ سوداگر نے بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ اپنے ساتھ اپناترازولے جائے اور بادشاہ نے اس کی اس بات پر اتفاق کیا۔
اگلے دن سوداگر اپنے خاندان کے ساتھ اصطبل میں رہنے چلا گیا۔ سوداگر کچھ دیر بیٹھ کر سوچتا رہا کہ وہ سونے کے سکے حاصل کرنے کیلئے کیا کرے؟تب اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ وہ اٹھا اور گھوڑے کی کھد کو اپنے ترازو سے ناپنا شروع کر دیا۔ سوداگر کو ایسا کرتے دیکھ کر گھوڑے کے رکھوالے اس پر ہنسنے لگے اور سوچنے لگے کہ سوداگر پاگل ہو گیا ہے ۔
ایک رکھوالے نے سوداگر سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ سوداگر نے جواب دیا ـ ’’مجھے بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ میں ان کے شاہی گھوڑوںکی کھد کو ناپوں اور دیکھوں کے گھوڑوںکو کافی خوراک مل رہی ہے کہ نہیں‘‘۔ سوداگر نے ہر گھوڑے کی کھدناپی اور اسے پتہ چلا کہ کچھ گھوڑوں کی خوراک بہت کم تھی۔ سوداگر پہلے سے ہی جانتا تھا کہ کچھ رکھوالے بازار میں گھوڑوں کی خوراک فروخت کر رہے تھے۔ سب رکھوالے سوداگر سے گزارش کرنے لگے کے وہ یہ سب بادشاہ کو نہ بتائے اور اس کے بدلے میں وہ کچھ بھی کرنے کیلئے تیار تھے۔ سوداگر نے ان سے بولا کہ جو سکے ان کو گھوڑے کی خوراک فروخت کرنے سے ملیں وہ سب سکے اس کو دے دیں۔ اور اس کے خاندان کو کھانا بھی کھلائیں۔ رکھوالو ں نے اس کی بات مان لی۔
ایک مہینے کے بعد سوداگر نے ایک ہزار سونے کے سکے جمع کر کے بادشاہ کو دئیے، جس پر بادشاہ بہت حیران تھااور اسے یقین نہیں آیا کہ سوداگر نے بعیر کام کہ یہ سکے جمع کئے۔ لہٰذا بادشاہ نے سوداگر کو حکم دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ دریا کے قریب ایک جھونپڑے میں رہے، اور اس بار بغیر کوئی کام کے2ہزار سونے کے سکے جمع کر کے دکھائے۔ بادشاہ نے ایساحکم صرف سوداگرکے ذہن کی آزمائش کیلئے دیا۔
سوداگر نے پھر سے بادشاہ سے اپنے ترازو کو ساتھ لے کر جانے کی اجازت مانگی اور بادشاہ مان گیا۔ سوداگر اور اس کا خاندان دریا کے قریب ایک چھوٹے سے جھونپڑے میں رہنے لگے۔سوداگر نے اپنے ترازو سے پانی کو تولنا شروع کر دیا۔ملاحوں نے سوداگر کو ایسا کرتے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا تھا؟سوداگر نے جواب دیا: ’’بادشاہ نے اس کو حکم دیا ہے کہ پتا کروں کونسا ملاح اپنی کشتی میں اضافی مسافروں کو لے جا رہا ہے‘‘۔
یہ سن کر سب ملاح پریشان ہو گئے، کیونکہ تمام ملاح اپنی کشتی میں زیادہ مسافر لے کر جا رہے تھے۔ انہوں نے سوداگر سے درخواست کی کہ وہ بادشاہ کو کچھ نہ بتائے اور بدلے میں وہ کچھ بھی کرنے کیلئے تیار تھے۔
سوداگر نے ملاحوں سے کہا کہ وہ اپنی کشتیوں میں زیادہ مسافر نہ لے کر جائیں اور جو سکے انہوں نے پہلے حاصل کیے تھے وہ اسے دے دیں۔ اس طرح سوداگر نے مہینے کے آخر میں بادشاہ کو2ہزار سونے کے سکے جمع کر کے دے دیئے۔
ا س طر ح بادشاہ کو سوداگر کی بات سے اتفاق کرنا پڑا کہ ’’ایک شخص اپنی زندگی کو پورا کر سکتا ہے،جب تک وہ اپنے ذہن کا استعمال کرے‘‘۔