طفیل ہوشیار پوری صاحب نظر شاعر
تعارف: طفیل ہوشیار پوری صاحب 14 جولائی 1914ء کو ضلع ہوشیار پور کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ مشرقی علوم سے گہری دلچسپی تھی۔ فارسی میں منشی فاضل تک تعلیم حاصل کی۔ 1935ء میں سیالکوٹ آ گئے اور درس و تدریس میں مصروف ہو گئے۔
طفیل صاحب کے خاندان میں صدیوں سے درس و تدریس کا سلسلہ چلا آ رہا تھا۔ انہوں نے بھی اسے اپنایا، رفتہ رفتہ اقبال کے شہر کی شاعرانہ فضائیں طفیل صاحب کے گرد محیط ہوئیں اوروہ سیالکوٹ کی ادبی محفلوں میں باقاعدہ شریک ہونے لگے۔ اثر لکھنوی، اثر صہبائی اور امین حزیں کا فیضِ صحبت تھا جس کی تاثیر سے طفیل کو شعر گوئی پر قدرت حاصل ہوئی۔ ان کی پہلی غزل ’’ادبی دنیا‘‘ میں چھپی جس کا مطلع تھا:
مآلِ عشق سے واقف مری حیات نہ تھی
یہ آنکھ محرمِ اسرارِ حادثات نہ تھی
طفیل ہوشیار پوری کو متعدداعزازات سے نوازا گیا جن میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی شامل ہے۔ان کا انتقال 31 سال قبل چار جنوری 1993ء کو ہوا۔جس طرح مصوری خطوط و دوائر کا کھیل ہے اور موسیقی سازو آواز کا جادو، یا جیسے رقص اعضاء کی شاعری ہے، اسی طرح شعر الفاظ کے موتی کمال اور حر کی جمال کا ایسا امتزاج ہے جو شہودِ الہامی کی تخلیق ہونے کے باوصف کارگاہِ فہم و دانش میں براہ راست درِ احساس پر دستک دیتا ہے۔یوں تو شاعری ہر عہد اور ہر زبان میں ہوتی رہی ہے لیکن اردو شاعری کا مزاج قدرے مختلف ہے۔ اس باب میں ڈاکٹر وزیر آغا نے کچھ کہنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ ہر زبان کا اپنا مزاج ہوتا ہے لیکن اردو زبان کا معاملہ قدرے مختلف ہے کیونکہ اسے ذریعہ اظہار و ابلاغ بنانے والے کو ہر گام پر ایک امتحان سے گزرنا پڑتا ہے… مختلف المزاج زبانوں کے مختلف المزاج الفاظ کو ایک ہی جملے یا شعر میں اس طرح پرونا کہ وہ پیوند کاری معلوم نہ ہو،کوئی آسان بات نہیں۔یہ کام طفیل ہوشیار پوری سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا۔
طفیل ہوشیار پوری برصغیر پاک و ہند کے بزرگ اور بڑے معروف شاعر تھے۔ ان کی وضعداری انہیں اس کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ کسی بھی صورت میں روایت اور کلاسیکی اقدار کے احترام سے گریز کریں یا شاعری میں کسی نئے تجربے یا الفاظ کی شیشہ گری سے کام لیں۔ اُن کا دھرم پیار، پریت یا پریم ہے اور وہ سیدھی سادھی زبان میں ہنر مندی کے ساتھ روایت کا بھرپور احترام کرتے ہوئے لوگوں کے دلوں پر دستک دینے کی خاطر ان الفاظ کا چنائو کرتے ہیں۔ جو اپنے صوتی جمال اور تاثراتی کمال سے سننے اور پڑھنے والے کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں وہ احساساتی نزاکتوں اور لطافتوں سے ہم آغوش اور آتماکی چنتا اور اچنتا سے فیضیاب ہو سکتا ہے۔
پیار کا نام ہی گیان ہے پیار کا نام ہی جوگ
پیار کی جوتی کے بیان اندھے سی سب لوگ
ان کے ہر شعر میں ان کا خلوص، پیار اور سوچ سنورتا رچی بسی نظر آتی ہے۔ ان کا کوئی شعر پڑھئے یا سنیے تو یوں لگتا ہے کہ ان کے مخاطب ہمارے کان نہیں بلکہ ہمارے دل ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ ان کی کویتا پریم منور میں پریت اور پریتم کے لئے گائے جانے والا آتما اور پرماتما کا بھید بھجن ہے۔
ان کے اشعار میں کہیں ذات سے کائنات کی طرف شعوری سفر ملتا ہے اور کہیں کائنات سے ذات کی طرف لاشعوری مراجعت، لیکن کسی بھی موڑ یا مرحلے پر وہ عظمتِ انسانی کے شعوری احساس کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔طفیل ہوشیار پوری ایک صاحبِ نظر صوفی کی طرح ہر چہرے اور ہر ذرے میں خدا کا نور دیکھتے ہیں اور عظمت و مساوات انسانی کو اپنا جزو ایمان سمجھتے ہیں۔ لوگوں کے درمیان انہیں ہر اونچ نیچ اور ہر تفریق دکھ دیتی ہے اور ان کی بیشتر شاعری اسی کرب کا اظہار ہے۔ وہ لوگوں کو پرچھائیوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھ کر تڑپ جاتے۔ وہ اس احساس زیاں کو عام بھی کرناچاہتے ہیں۔
بعض پیرانِ جہاں دیدہ کی طرح ان کی رائے بھی یہی رہی کہ اس دور میں تصنع، ظاہر داری، منافقت، ریاکاری اور زر پرستی عام ہے اور معیار عزو شرف، علم و دانش، اخلاق و کردار اور نجابت و شرافت کی بجائے مال و دولت اور دنیاوی امور میں اختیار و اقتدار رہ گیا ہے۔ وہ طبقاتی منافرت کے بھی خلاف تھے اور جب وہ ان میں سے کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کرتے تو ان کے بیان میں بلا کا طنز اور کاٹ پیدا ہو جاتی ۔
بالعموم ان کا اسلوب شگفتہ، سادہ اور برجستہ ہے اور معروف اردو کے ساتھ ساتھ شدھ ہندی کے الفاظ کو وہ اس سلیقہ سے برتتے کہ انوار سخن دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ ان کا کلام داخلی اور خارجی واردات، حسن و محبت کے معاملات، حقیقت و مجاز کی توقیرات کے ساتھ ساتھ احساس کی نزاکت، جذبات کی شدت اور فکر کی وسعت کا خوبصورت نمونہ ہے اور وہ تلمیحات، محاوروں اور استعاروں سے اپنے کلام میں جو معنوی وسعت پیدا کرتے ہیں اور تکلفات سے بالاتر ہو کر جس خوش اسلوبی سے سیدھے سادھے الفاظ میں بہت بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ اس کے پیش نظر ان کی شاعری کی اثر آفرینی کا اعتراف اس عمر کے متعدد ناقدین شعر و ادب کو ہے۔ جب وہ اپنے مخصوص لہجے میں کسی بزم سخن میں نغمہ سرا ہوتے ہیں تو ان کا خلوص، اظہار کی شائستگی اور فکرو بیان کی ہم آہنگی سننے والے کو داد دینے پر اکساتی ہی نہیں بلکہ مجبور کر دیتی ہے۔
روایت کے پاسبان طفیل ہوشیار پوری کے طفیل ہوشیار پوری کے کلام کے بہت سے مجموعے شائع ہو ئے لیکن ان کا ایک مجموعہ ’’سوچ مالا‘‘ یقیناً اس اعتبار سے منفرد مقام کی حامل تھا کہ اس میں انہوں نے اردو اور ہندی کے امتزاج سے بڑے دلکش، دلنشیں اور اثر آفریں تجربے کئے اور یہ راہ بھی سجھائی ہے کہ اردو کو مفرس اور معرب کرنے کی بجائے اس کے دامن کو علاقائی زبانوں کے الفاظ سے بھی مالا مال کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح انہوں نے یہ ترغیب بھی دی ہے کہ روایت کی پاسداری کے ساتھ بھی زبان و بیان میں اظہاریت کے تجربات کئے جا سکتے ہیں۔’’سوچ مالا‘‘ کو پڑھ کر جو طفیل ہوشیار پوری سامنے آتا ہے وہ ’’جام مہتاب‘‘ کے خالق سے خاصا مختلف ہے۔اس ضمن میں طفیل ہوشیار پوری خود فرماتے ہیں کہ طالب علمی کے زمانے میں اردو کے عظیم شاعروں کا کلام پڑھنے کا موقع ملا۔ حمد و نعت کے علاوہ زندگی کے عظیم حقائق، اخلاقیات اور انسان دوستی پر مشتمل منفرد اشعار پڑھنے میں خاص مسرت حاصل ہوتی تھی۔ بزرگ شاعر علی قلی قطب مرحوم کے سادہ اشعار کو پڑھا تو ایک مخصوص کیفیت محسوس ہوئی ۔اس نے دل پر گہرے اثرات مرتب کئے ۔تقسیم ہند سے پہلے سادہ اردو زبان میں غزلیں کہنے کی توفیق بھی ہوئی۔اکثر عظیم شاعروں میں اہل دل حضرات نے میرے اس رنگ سخن کو پسند فرمایا۔
فقیر زادہ سید فخر الدین کے مطابق طفیل ہوشیاری پوری کے دل میں بلا کا درد اور تڑپ ہے۔ مشرقی اقدار اور وطن سے ان کی محبت بھی ان یک پہچان ہے۔ جب وطن عزیز کا پیار انہیں آمادہ اظہار کرتا ہے تو وہ ملی اور قومی ترانے کہتے ہیں۔ جب ان کی سوچ اپنی ذات کے حوالے سے شعر کے قالب میں ڈھلتی ہے تو ایسی غزل تخلیق پاتی ہے جس میں تغزل بھی ہوتا ہے اور غنائیت بھی۔ لیکن یہی تڑپ جب جگ بیتی کے اظہار کا روپ دھارتی ہے تو ان کی سوچ دلہن کبھی دوہے کا لباس زیب تن کرکے اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی ہے اور ’’منہ دکھائی‘‘ میں ناقدین کو سلامی دینے پر مجبور کردیتی ہے تو کبھی ایسے دوہے اور رباعیاں اپنی تمام تر معنوی اثر آفرینی کے ساتھ تخلیق پاتی ہیں جس میں وچار کی، دھیان کی سنورتا، اورگیان کی گھمبیر تارچی بسی نظر آتی ہے۔
قطعات
انسان بھی اک قطرہ ہے دریائے سخا کا
دیباچہ ہے یہ مصحفِ انوارِ خدا کا
بخشش کے خدو خال اسی سے ہیں عبارت
یہ نقش ہمہ رنگ ہے کس دست عطا کا
…………
بے اذنِ خدا روحِ سخاوت نہیں ملتی
بے سجدہ کئے راہِ عبادت نہیں ملتی
جب تک نہ خداوندِ دو عالم کا کرم ہو
ہمدردیٔ انسان کی دولت نہیں ملتی
منتخب اشعار
رقصِ جذبات کی لے، شعلۂ آواز کا رنگ
اب تک آنکھوں میں ہے اس جلوہ گہِ ناز کا رنگ
…………
عارضوں کی چاندنی میں گیسوئوں کے سائے میں
زندگی گزری ہے اپنی جنتوں کے سائے میں
…………
یہ جانتے ہوئے کہ نہیں حسن کو ثبات
دم حسنِ بے ثبات کا بھرتا چلا گیا
…………
اکِ ذرا اُس نے چہرے سے اُلٹی نقاب
لو اندھیروں نے دی روشنی کی طرح
…………
ترے لب اور ترے عارض کی لَو سے
فلک کی چاندنی شرما رہی ہے
…………
ہر غمِ دہر کو ٹھکرا کے گزر جاتا ہوں
غمِ محبوب کو لے کر دل ناکام کے ساتھ
…………
جاتے جاتے صبا جانے کیا کہہ گئی
مضطرب ہے کلی پھول مغموم ہے
…………
مری قسمت ہی میں تشنہ لبی ہے
تری آنکھوں پہ کیوں الزام آئے
…………
کوئی بھولی ہوئی صورت کوئی بسری ہوئی یاد
کچھ نہ کچھ دل کے دھڑکنے کا سبب ہوتا ہے
…………
آہ بن کر دل کے افسانے زباں تک آ گئے
آگ بھڑکی تھی کہاں شعلے کہاں تک آ گئے
…………
غم حبیب، غم زندگی، غم دوراں
ملیں جو تجھ کو تو رازِ بقا تلاش نہ کر
…………
اب تو ذرا سی بات پہ ہوتی ہے آنکھ نم
پہلے ہمارے دل کا یہ عالم کبھی نہ تھا
…………
اب دورِ خزاں آئے یا فصلِ بہار آئے
ہم اپنی تو کانٹوں پر ہنس ہنس کے گزار آئے
…………