معاشرے کی اصلاح کیسے ممکن ہے؟

تحریر : مولانا محمد یوسف خان


رسول اللہ ﷺ نے اصلاح کرتے ہوئے لوگوں کے دلوں کو جوڑا مواخات قائم فرمائی، بھائی بھائی بنایا اورخودعملی نمونہ بن کر دکھایا

 حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے اگر کوئی شخص برائی ہوتے دیکھے تو اسے اپنے ہاتھوں سے دور کر دے، اگر یہ نہ کر سکے تو زبان سے منع کر دے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں اسے برا سمجھے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے‘‘ (مسلم)۔اللہ رب العزت نے رسول اکرم ﷺ کو لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے بھیجا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ رب العزت نے ایمان والوں پر بڑا حسان کیا کہ ان میں انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجے جو ان کو اللہ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور اللہ کی کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور پہلے تو یہ کھلی گمراہی میں تھے‘‘(سورہ آل عمران :164)۔

اور گمراہیاں بھی اس قدر کہ زندگی کے ہر موڑ میں لوگ بھٹکے ہوئے تھے معمولی معمولی باتوں پر طویل لڑائیاں تھیں جس میں ناحق خون بہتا رہتا تھا، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے رہتے تھے، بدکاری عام تھی، شراب نوشی کے رسیا تھے، قمار بازی اور جوئے کی لعنت میں مبتلا تھے۔ سود خوری سے لوگوں کا استحصال کرتے، دوسری طرف لوگ غربت کی وجہ سے بچوں کو قتل کر ڈالتے اور بچیوں کو عار سمجھتے ہوئے زندہ دفن کر دیتے، انسانوں کو غلام بنا کر بیچا اور خرید ا جاتا، سفا کی اور بے رحمی پر فخر کیا جاتا، بے حیائی عام تھی، مذہبی گمراہی میں مبتلا تھے معاشی اور معاشرتی برائیاں عام تھیں۔

ایسے معاشرے میں رحمۃ اللعالمینﷺ کو اللہ رب العزت نے مصلح اعظم بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ نے ان کی اصلاح کے کیا طریقے اپنائے؟ کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے یہ سب باتیں واضح ہو جاتی ہیں۔

حکم الٰہی '' وانذر عشیرتک الاقربین آیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کی اصلاح سے آغاز فرمائیے تو سب سے  پہلے کوہ صفا کے دامن میں اہل مکہ کو اکٹھا کیا، پیغام اصلاح و ایمان دیا، اللہ کی وحدانیت کا اعلان کیا۔ لوگوں نے قبول نہ کیا پھر ایک دن خاندان کے تمام افراد ایک دعوت میں اکٹھے تھے وہاں پیغام اصلاح دیا۔ آہستہ آہستہ لوگ قبول کرتے چلے گئے لیکن کچھ لوگوں کو اپنے باپ دادا کے دین سے محبت تھی، کچھ لوگوں کو اپنی سرداری خطرے میں پڑتی نظر آئی، بد اخلاقیوں پر تنقید برداشت نہ ہوئی، مساوات قائم ہونے سے اندیشے آنے لگے۔ بنو ہاشم سے دشمنی پر اتر آئے۔ پھر کفار مکہ نے حضرت محمدﷺکو جس قدر تکلیفیں پہنچا سکتے تھے پہنچائیں۔

مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ شریف تشریف لے گئے اور پھر امت کے سامنے ایک ایسی اسلامی ریاست قائم فرما گئے جس کا ہر ہر فرد اصلاح یافتہ تھا، رضی اللہ عنہم اجمعین۔اس اعلیٰ درجے کی اصلاح کیسے ممکن ہوئی اس کے لیے اللہ رب العزت نے مصلح اعظم ﷺ کو راہنما اصول عطا فرمائے۔ ترجمہ: ’’ اپنے رب کے راستے کی طرف دانائی اور عمدہ نصیحت سے بلائیے اور اچھے طریقے سے مناظرہ کیجیے‘‘۔

لہٰذا مصلح اعظم ﷺ نے امت کی اصلاح کیلئے تا قیامت اسوہ حسنہ کے ذریعہ دینی اصول قائم کر دیئے کہ حکمت و تدبر سے اصلاح کی جائے، عمدہ نصیحت کے ذریعہ اور اصلاح کرتے ہوئے دلائل کی روشنی میں اپنی بات واضح کرتے جائیں۔

رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ اللہ تعالی نے امت کے لیے نمونہ زندگی عطا فرمایا کہ اصلاح کے لیے نرم طبیعت، نرم دل انتہائی موثر ہوتے ہیں۔ سورہ آل عمران میں فرمایا: ترجمہ ’’اگر آپ سخت خو، اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے بھاگ جاتے‘‘۔اصلاح فرماتے ہوئے لوگوں کو ہمدردی اور محبت سے ان کے برے اعمال کے برے انجام سے آگاہ فرماتے اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم اور اس کی محبت سے لوگوں کو پرامید بناتے۔

رحمۃ للعالمین ﷺنے اصلاح کیلئے رواداری کا اصول بھی سکھایا۔ دوسروں کے راہنماؤں اور پیشواؤں کو برا کہنے سے جو رنجیدگی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے وہ عموماً اصلاح میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کے لیے روانہ کرتے ہوئے نصیحت فرمائی لوگوں کو خوشخبری سنانا نفرت نہ دلانا۔ رسول اللہ ﷺ نے اصلاح کرتے ہوئے لوگوں کے دلوں کو جوڑا مواخات قائم فرمائی، بھائی بھائی بنایا اورخودعملی نمونہ بن کر دکھایا۔ انفرادی اصلاح بھی فرمائی اور اجتماعی اصلاح کا انتظام بھی فرمایا۔

لیکن اصلاح تو وہ کرے جس کی خود اپنی اصلاح ہو چکی ہو ورنہ وہ خود تو یہی کہے گا انما نحن مصلحون‘‘  ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایاترجمہ: ’’یہ تو اصلاح کرنے کے بجائے فساد کرنے والے ہیں لیکن انہیں شعور نہیں‘‘۔ 

اسی لیے حضرت محمد ﷺکو مصلح اعظم بنا کر بھیجا تو آپ ﷺ نے اصلاح کے لیے یہ اصول سکھائے کہ اصلاح کرنے والے کو سب سے پہلے اپنے اندر اخلاص پیدا کرنا چاہیے۔ ریا کاری، نمائش مقصود نہ ہو، لوگوں سے ہمدردی ہو، اصلاح کرنے والا لوگوں کو حقیر نہ سمجھ رہا ہو۔ اصلاح کرنے والے کے لیے اخلاق حسنہ سے آراستہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے اصلاح کے لیے آمادہ کرتے ہوئے اپنی ذاتی زندگی کو لوگوں کے سامنے دلیل کے طور پر پیش کیا۔ مصلح اعظم ﷺنے لوگوں کی اصلاح کرتے ہوئے ہمیشہ لوگوں کی نفسیات کا خیال رکھا۔ کسی اجنبی بدو کی اصلاح کا طریقہ کچھ اور تھا لیکن تربیت یافتہ صحابہ کی اصلاح کا طریقہ اس سے بالکل مختلف ہوتا۔

آج اگر کوئی انسان اصلاح کرنے چلے اور نتائج مثبت نظر نہ آئیں تو پھر اسے مصلح اعظم ﷺ سے طائف کی وادی والا صبر اورعمل سیکھنا ہو گا۔ اصلاح کرنے پر لوگوں کے منفی رد عمل کے باوجود ان کے لیے بارگاہ الٰہی میں ان کی ہدایت کے لیے دعائیں کرنا ہوں گی اور یہ اصلاح کا عمل مسلسل جاری رکھنا ہو گا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ رحمہ للعالمین ﷺ کے طریقہ پر ہوگا تو یقیناً اصلاح کے نتائج ظاہر ہوں گے۔ 

اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی اصلاح کرنے اور دوسروں کی اصلاح مصلح اعظم ﷺ کے طریقے سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ پی ٹی آئی مطالبات سے پیچھے کیوں ہٹی؟

پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے مابین مذاکراتی عمل کو دوسرا راؤنڈ آج شروع ہونے جا رہا ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف اپنے تین مطالبات سے حیران کن طور پر پیچھے ہٹ چکی ہے ۔

مذاکراتی عمل میں بریک تھرو ہو گا ؟

ایک دوسرے کیلئے تحفظات کے باوجود آج سے حکومت‘ اس کے اتحادی اور پی ٹی آئی مذاکرات کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ مذاکراتی عمل سے توقعات تو یہی ظاہر کی جا رہی ہیں کہ یہ ملک کے سیاسی اور معاشی مستقبل کیلئے اچھا ثابت ہو گا لیکن دیکھنا ہوگا کہ اپوزیشن حکومت سے اور حکومت اپوزیشن سے کیا چاہتی ہے۔

کراچی میں دھرنے مصیبت بن گئے

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے عوام پر گزشتہ ایک ہفتہ بڑا بھاری گزرا۔ تعمیراتی کاموں کے نام پر پہلے ہی شہر جگہ جگہ سے کھدا پڑا ہے اور راستے بند ہیں، رہی سہی کسر دھرنوں نے پوری کردی۔ درجن بھر سے زائد مقامات پر دھرنے دیے گئے، آنے جانے والی دونوں سڑکوں کو بند کردیا گیا، ٹریفک پولیس نے متبادل ٹریفک روٹ بھی جاری کیا لیکن شہر میں ٹریفک کی جو صورتحال ہے اس سے گھنٹوں ٹریفک جام معمول رہا۔

سال نیا سیاست پرانی

2024ء خوشگوار اورناخوشگوار یادوں، امیدوں، مایوسیوں اور رونقوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔سال گزشتہ میں خیبرپختونخوا نے کئی نشیب وفراز دیکھے۔

2024 ء تلخ یادوں کے ساتھ رخصت ہوا

سال 2024 ء بلو چستان میں دہشت گردی اور جرائم کے حوالے سے چیلنج بن کر آیا۔یکم جنوری سے31 دسمبر تک صوبے میں دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہا جس میں عام شہری اور سیکورٹی فورسز کے افسران اور اہلکارشہید ہوئے۔2024ء تک پانچ اضلاع میں14خود کش حملوں میں سیکورٹی فورسز کے 14 اہلکاروں اور 27مسافروں سمیت48افراد شہید جبکہ11اہلکاروں سمیت 106افراد زخمی ہوئے۔

یوم حق خودارادیت اور ہماری ذمہ داریاں

پانچ جنوری کو لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری یوم حقِ خود ارادیت منا تے ہیں۔ پانچ جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان اور بھارت نے کشمیریوں کیلئے حقِ خود ارادیت یعنی رائے شماری کی قرارداد منظور کی تھی۔