مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ پی ٹی آئی مطالبات سے پیچھے کیوں ہٹی؟

تحریر : عدیل وڑائچ


پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے مابین مذاکراتی عمل کو دوسرا راؤنڈ آج شروع ہونے جا رہا ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف اپنے تین مطالبات سے حیران کن طور پر پیچھے ہٹ چکی ہے ۔

بانی پی ٹی آئی نے صرف دو مطالبات سامنے رکھنے کی حتمی منظوری دی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف آٹھ فروری کے انتخابات کو تسلیم نہ کرنے کے سب سے بڑے  مطالبے سے بظاہر کچھ وقت کے لیے پیچھے ہٹ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی منظوری سے تحریک انصاف   حکومت کے ساتھ نہ صرف بیٹھنے بلکہ اسے کسی حد تک ماننے کو بھی تیار ہو چکی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بیانیے کا  سب سے بڑا حصہ فارم47 اور آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد مینڈیٹ چوری کا الزام تھا، مگر اسے اندازہ ہو چکا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بجائے اب صرف شہباز شریف کی حکومت کے ساتھ بات چیت کرنا ہو گی۔ اس کے علاوہ دوسرا کوئی حل نہیں ہے۔ بانی پاکستان تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت پر زور دیا تھا مگر مقتدرہ کی جانب سے بارہا کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کو سیاسی قیادت کے ساتھ ہی بیٹھنا ہوگا۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی بھی اس چیز سے مشروط ہے کہ وقتی طور پر ہی نہیں بلکہ اس حکومت کے تسلسل کو اس کی مدت تک کیلئے تسلیم کرنا ہو گا، بصورت دیگرحکومت یہ کیوں چاہے گی کہ وہ باہر آ کر سیاسی عدم استحکام کو مزید بڑھاوا دیں؟ شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف نے بانی پی ٹی آئی کی فی الوقت رہائی کا مطالبہ واپس لے لیا ہے۔ تحریک انصاف نے ابتدائی طور پر جو نکات غیر  رسمی طور پر حکومت کے سامنے رکھے تھے ان میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا مطالبہ سرفہرست تھا مگر اب تحریک انصاف کے مطالبات کی فہرست میں صرف کارکنوں کی رہائی اور 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام شامل ہے۔ پاکستان تحریک انصاف چھبیسویں آئینی ترمیم کے معاملے سے بھی پیچھے ہٹ چکی ہے۔ یوں اب اس کے پانچ مطالبات میں سے صرف دو مطالبات ہی حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے سامنے ہوں گے۔ آج باقاعدہ تحریری طور پر یہ مطالبات سپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں قائم کمیٹی کے سامنے آئیں گے۔ ایک روز قبل اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے بشریٰ بی بی، چیف آرگنائزر شاداب جعفری اور وکلا ٹیم کی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس سے قبل مذاکراتی کمیٹی کے ارکان نے بھی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی۔یوں آج ہونے والے مذاکراتی عمل میں جو دو مطالبات پیش ہوں گے وہ سابق وزیر اعظم کی رضامندی سے ہی ہو رہے ہیں۔

کچھ حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے مذاکراتی عمل شاید اس لئے شروع کیا گیا ہے کہ مستقبل میں بیرونی دباؤ سے بچا جا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پہلے دن سے سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کیلئے پاکستان تحریک انصاف سے بات چیت کیلئے تیار تھی ۔ تحریک انصاف ہی حکومت کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی تھی،مگر اس مرتبہ حکومت نے مذاکراتی عمل بڑے دلچسپ انداز میں شروع کیا۔ مذاکراتی عمل کو دستاویزی شکل دی گئی اور اسے غیر رسمی طریقے کے بجائے رسمی طریقے سے شروع کیا گیا۔ مذاکراتی کمیٹی نے باقاعدہ اجلاس کا نوٹس جاری کیا اور اس سے متعلق کمیٹی کے اراکین کو باقاعدہ تحریری طور پر آگاہ کیا گیا۔ حکومت اس معاملے میں پاکستان تحریک انصاف کے کچھ مطالبات تسلیم کرنے کو تیار بھی ہو چکی ہے۔ مگر اس کے بدلے میں تحریک انصاف سے حکومت کو کیا ملے گا؟ کیا پاکستان تحریک انصاف اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت اورریاستی اداروں پر تنقید اور الزمات کا سلسلہ بند کرے گی؟ تحریک انصاف نے تو سمندر پار پاکستانیوں کو ترسیلاتِ زر پاکستان بھجوانے سے روکنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ ایسے میں یقینا حکومت نے بھی یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے مطالبات اگر مان بھی لئے جائیں تو حکومت کو کیا ملے گا۔ پی ٹی آئی کی تو سیاسی حکمت عملی ہی جارحانہ سیاست پر مبنی ہے۔ اگر حکومتی مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہے اور آئندہ چار برس انتظار کرنا ہے تو تحریک انصاف کے ہاتھ کیا آئے گا؟ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے مطالبات کی فہرست میں صرف وہی نکات شامل کئے ہیں جو  قابلِ عمل ہیں۔ اس کے پہلے مرحلے میں بانی پی ٹی آئی کو چھوڑ کر سیاسی قیدیوں کی رہائی ہے۔ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات میں اگرچہ ریاست کا مؤقف اور بیانیہ بڑا واضح ہے لیکن تحریک انصاف کا مطالبہ مانتے ہوئے ان واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنا بھی دیا جائے تو اس میں پی ٹی آئی کو نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ مگر جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ  بنیادی طور پر 9 مئی کے واقعات پر ریاستی بیانیے کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی معلوم ہوتی ہے۔ 

دوسری جانب حکومت معاشی میدان میں اپنا بیانیہ بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جہاں2024 ء میں حکومت کئی برس بعد مہنگائی سنگل ڈیجٹ میں لانے میں کامیاب ہوئی، کرنٹ اکاؤنٹ کئی برسوں بعد سرپلس ہے، شرح سود میں مسلسل کمی ہو رہی ہے، آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے پانچ سالہ قومی اقتصادی منصوبہ ’’اڑان پاکستان‘‘ کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 2028 ء تک جی ڈی پی کی شرح 6 فیصد ، سالانہ 10 لاکھ اضافی ملازمتیں اور برآمدات کا ہدف 60ارب ڈالرز تک لے جانے کا پروگرام ہے۔ یہ پروگرام مقبولیت کے بحران سے دوچار حکومت کو آئندہ انتخابات میں کسی حد تک کارکردگی کی بنیاد پر اپنا بیانیہ بنانے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی سے سے چند روز قبل جب صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ حکومت نے معیشت کو استحکام دیا ہے تو انہوں نے کہا کہ معیشت مستحکم ہونے سے ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا مگر ترقی نہیں ہوئی۔ بیانیہ کے لیے ہی سہی مگر حکومت  معاشی میدان میں جو اقدامات کر رہی ہے ان سے فائدہ عوام کو ہی پہنچے گا۔ معاشی میدان میں ہونے والے اقدامات کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے حکومت کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر انتظامی کوتاہیوں کو بھی دور کرنا ہو گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ذہین سوداگر

بہت پہلے کی بات ہے۔ ایک ظالم بادشاہ تھا۔اس کا رویہ اپنی سلطنت کے لوگوں کے ساتھ بے حد ظالمانہ تھا۔ وہ ہمیشہ نت نئے طریقوں کی تلاش میں رہتا جن کے ذریعے لوگوں سے ٹیکس جمع کر سکے ۔ بادشاہ ہر وقت ایسے لوگوں سے گھرا ہوا رہتا، جو اس کے غلط کاموں کی تعریف کرتے اور جو لوگ اس کے غلط کاموں کی نشاندہی کرتے ان کو ناپسند کرتا تھا۔ اس کی بادشاہی میں ایک بہت ذہین سوداگر تھا اور بادشاہ اس کو بہت ناپسند کرتا تھا۔

گلیشیئر کیسے حرکت کرتے ہیں

موسم سرما میں برف باری کے بعد موسم گرما میں برف کا پگھلائو اورعمل تبخیر ساری برف کو ختم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔اس طرح ہر سال برف کی مقدار بڑھتی رہتی ہے۔

ماں کی دُعا

کسی شہر میں ایک غریب بیوہ عورت رہتی تھی۔ اس کے دو بیٹے تھے۔ وہ غریب عورت محنت، مزدوری کرکے دونوں بیٹوں کی پرورش کرتی تھی۔ ایک دن دونوں بھائی محلے میں کھیل رہے تھے کہ ایک نیک دل انسان ادھر سے گزرا۔اس نے دونوں بچوں کو کچھ روپے دیئے۔دونوں بھائی پیسے لے کر بہت خوش ہوئے اور کھانے کی چیزیں خریدنے بازار چل دیئے۔ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی سے کہا ’’ تم ان روپوں کا کیا لو گے‘‘؟

ذرامسکرایئے

ایک بیوقوف شخص نے اپنی موٹر سائیکل پر پانچ روپے والے کئی سکے لگائے ہوئے تھے۔ راستے میں ایک دوست ملا تو اس نے وجہ پوچھی۔بیوقوف نے جواب دیا’’مجھے مکینک نے کہا تھا کہ ا س پر پیسے لگائو تو ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔٭٭٭

دلچسپ و عجیب

٭…کیا آپ کو بھنڈی پسند نہیں ؟ کیا آپ کو علم ہے کہ یہ پاکستان کی قومی سبزی ہے۔ ٭…چند پودے ایسے بھی ہیں جو مکھیوں کا شکار کر کے ،انہیں مار کے اپنی غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں جیسا کہ ’’سن ڈیو‘‘۔

پہیلیاں

دو چڑیاں دو ہی پر، کبھی نہ چھوڑیں اپنا گھر آنکھیں لمبا سا اک کیڑا ہے، میٹھا جیسے شیرا ہےشہتوت