سال نیا سیاست پرانی

تحریر : عابد حمید


2024ء خوشگوار اورناخوشگوار یادوں، امیدوں، مایوسیوں اور رونقوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔سال گزشتہ میں خیبرپختونخوا نے کئی نشیب وفراز دیکھے۔

سب سے بڑاواقعہ صوبے میں تیسری بار پی ٹی آئی کی حکومت کا قیام تھا۔ خیبرپختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار کوئی سیاسی جماعت مسلسل تیسری بار یہاں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ علی امین گنڈاپور کو پی ٹی آئی کی جانب سے صوبے کاوزیر اعلیٰ بنایا گیا تو ان کے سامنے تین بڑے چیلنجز تھے۔پہلا محاذ سیاسی میدان تھا جہاں بانی پی ٹی آئی کی رہائی سب سے بڑا چیلنج تھا۔ یہ وہ چیلنج تھا جس کے حوالے سے علی امین گنڈاپور سمیت تمام منتخب ارکان اسمبلی نے انتخابات سے قبل دعوے اور وعدے بھی کئے تھے۔ دوسرا بڑا محاذ صوبے میں امن وامان کی صورتحال کا تھا‘جبکہ تیسرا محاذ معیشت کاتھا۔وزیراعلیٰ بننے کے بعد علی امین گنڈاپور کو ان تین میں سے کسی ایک چیلنج کو ترجیحی بنیاد پر چننا تھا۔یہ ایک مشکل فیصلہ تھا کہ ایک طرف پارٹی کا دباؤ اور دوسری طرف عوام کی توقعات۔تاہم علی امین گنڈاپور نے سیاسی محاذآرائی کا میدان چنا اورپارٹی کے پلیٹ فارم سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے تحریک چلانے کا اعلان کیا۔نو ماہ کے دورِ حکومت میں پی ٹی آئی کی جانب سے سات بڑے دھرنے اور احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ دوبار ڈی چوک اسلام آباد کا رخ کیا‘ایک بار سنگجانی میں جلسہ کیا‘ دو بارصوابی میں جبکہ جبکہ ایک بار لاہور میں جلسہ کیا گیا۔24ستمبر کو اسلام آباد میں بانی پی ٹی آئی کی کال پر رخ کرنے کافیصلہ بہرحال مہلک ثابت ہوا۔مسلسل جھڑپیں ہوئیں اوراس دھرنے کے بعد پی ٹی آئی پر اندرونی حلقوں سے بھی تنقید شروع ہوگئی اور علی امین گنڈاپور اور ان کے حامیوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑا۔جس وقت یہ احتجاجی مارچ جاری تھا اسی وقت ضلع کرم میں خون کی ہولی کھیلی گئی جو سالِ گزشتہ کا سب سے اندوہناک واقعہ تھا،پاڑہ چنار جانے والے قافلے پر شرپسندوں نے حملہ کیاجوابی کارروائی میں بگن بازار سمیت پورے گاؤں کو جلا دیا گیا۔ جس وقت یہ جلاؤ گھیراؤ جاری تھا وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنی تمام قوت کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ صوبے کے اندرونی حالات کو نظراندازکرنے پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی حکومت کو تنقید کا سامنا کرناپڑا۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوانے صرف وفاق کے ساتھ سیاسی محاذ گرم نہیں رکھابلکہ ان کی اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے بھی ٹھنی رہی۔مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے شکیل خان کو کابینہ سے نکالا، عاطف خان کی طرف سے شکیل خان کے حق میں بیان آیا تو محکمہ اینٹی کرپشن کی طرف سے انہیں بھی لیٹر بھیج دیا،کچھ اور محکموں کے وزرا کو بھی کابینہ سے باہر کیااور قلمدانوں میں ردوبدل کیاگیا،مزید کچھ وزرا کے خلاف فائلیں کھولی گئیں اور اب آٹھ کے قریب وزرا اور معاونین خصوصی یا مشیروں کے خلاف انکوائریز چل رہی ہیں۔ ان سیاسی اختلافات کی وجہ سے حکومت کی توجہ سرکاری امور پر مبذول نہ ہوسکی اورآئے روز کے جلسے جلوسوں اور دھرنوں کی وجہ سے بیشتر وزرا کی توجہ اپنے محکموں سے ہٹی رہی۔ 

سال ِرفتہ امن وامان کے حوالے سے بھی بہت بھاری رہا۔لکی مروت،ڈی آئی خان، شمالی اورجنوبی وزیرستان دہشت گردوں کے نشانے پر رہے۔ پے درپے واقعات کے بعد اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں صوبائی حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کروائی گئی اور مشترکہ لائحہ عمل بنایاگیاجس کے بعد امن وامان کی صورتحال قدرے بہتر ہوئی۔ افغانستان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کاصوبائی حکومت کا فیصلہ بھی وفاقی حکومت کو ناگوار گزرا اور اسے غیرآئینی قرار دیا گیا۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے افغان قونصل جنرل سے ملاقات کی اور امن کی بحالی کیلئے مشترکہ اقدامات کی پیشکش کی تاہم یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی اور ہمسایہ ملک سے حملوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ معیشت کے میدان میں بھی اس صوبے کیلئے سالِ رفتہ کوئی زیادہ خوشگوار ثابت نہ ہوا۔ موجودہ حکومت کا ایک بڑا یوٹرن پولیس ایکٹ میں تبدیلی تھا۔ ایکٹ میں ترامیم کرکے آئی جی کو دیئے گئے اختیارات واپس لے لئے گئے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے ہی دور حکومت میں ٹرانسفر پوسٹنگ کے تمام اختیارات آئی جی کو تفویض کئے گئے تھے تاکہ محکمے کو سیاسی مداخلت سے پاک کیاجاسکے لیکن موجودہ حکومت نے یہ اختیارات آئی جی سے لے کر واپس وزیراعلیٰ کو سونپ دیے ہیں اور ایک بارپھر محکمہ پولیس میں مداخلت کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ وفاق کے ساتھ بجلی کے خالص منافع کی مد میں بقایاجات کاحصول بھی تاحال لیت و لعل کا شکارہے۔ خیبرپختونخوا حکومت اپنے پہلے نو ماہ میں کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ تو شروع نہیں کرسکی لیکن پہلے سے جاری منصوبوں پر ضرور توجہ دی گئی۔ صحت کارڈ کا دائرہ کار مزید وسیع کیاگیا اوراس میں مزید بیماریوں کا علاج شامل کیاگیا ہے‘جبکہ بی آرٹی کے رُوٹ میں بھی توسیع کی گئی اور متعدد علاقوں کو بی آر ٹی روٹ میں شامل کیاگیا ہے۔ اگرچہ خیبرپختونخوا میں نئے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی شرح کم ہے ‘ مگر اس کی متعدد وجوہات ہیں جن میں وفاق کے ساتھ سیاسی محاذآرائی ،صوبے پر عدم توجہ اور خراب معیشت ہے اہم ہے۔

2024ء تو گزرگیا لیکن سال ِنو میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت کو وہی چیلنجز درپیش ہوں گے جو گزشتہ سالوں سے چلے آرہے ہیں۔ صوبائی حکومت کو دھرنوں اور احتجاجوں کی سیاست چھوڑ کر صوبے پر توجہ دینی ہوگی۔ امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے وفاق کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا‘وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب افغانستان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہورہی ہے ‘ جبکہ سیاسی لڑائی پارلیمان اور عدالتوں میں لڑنی ہوگی۔ رواں سال وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کیلئے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ نہ صرف انہیں پارٹی کی سطح پر اپنے دعوؤں اور وعدوں کو پورا کرنا ہوگا بلکہ عوام کیلئے بھی کچھ ایسے منصوبے لانے ہوں گے جن کے خاطر خواہ اور فوری نتائج سامنے آسکیں۔ بدقسمتی سے 2024ء میں بھی قبائلی علاقے حکومتی توجہ کے منتظر رہے‘ لیکن انہیں اس بار بھی نظرانداز کردیاگیا۔نئے سال میں قبائلی عوام ایک بار پھر امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کی محرومیوں کاازالہ ہو،صحت، تعلیم ،بنیادی ضروریات اور سہولیات پوری کی جائیں اور ان علاقوں میں امن وامان بحال ہو۔ امن وامان کی بحالی کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔سکیورٹی فورسز جو سرحدوں پر دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہیں ان کی پشت پناہی کرنی ہوگی‘ بصورت دیگر امن کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا مشکل ہے۔2024ء میں ایک بڑی تبدیلی بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی پشاور آمد تھی۔بشریٰ بی بی نے آکر پارٹی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی تاہم 24 نومبر کے احتجاج کے بعد بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور میں اختلافات کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ اختیارات کی یہ رسہ کشی اب بھی جاری ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ نئے سال میں پلڑا کس کابھاری رہتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ذہین سوداگر

بہت پہلے کی بات ہے۔ ایک ظالم بادشاہ تھا۔اس کا رویہ اپنی سلطنت کے لوگوں کے ساتھ بے حد ظالمانہ تھا۔ وہ ہمیشہ نت نئے طریقوں کی تلاش میں رہتا جن کے ذریعے لوگوں سے ٹیکس جمع کر سکے ۔ بادشاہ ہر وقت ایسے لوگوں سے گھرا ہوا رہتا، جو اس کے غلط کاموں کی تعریف کرتے اور جو لوگ اس کے غلط کاموں کی نشاندہی کرتے ان کو ناپسند کرتا تھا۔ اس کی بادشاہی میں ایک بہت ذہین سوداگر تھا اور بادشاہ اس کو بہت ناپسند کرتا تھا۔

گلیشیئر کیسے حرکت کرتے ہیں

موسم سرما میں برف باری کے بعد موسم گرما میں برف کا پگھلائو اورعمل تبخیر ساری برف کو ختم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔اس طرح ہر سال برف کی مقدار بڑھتی رہتی ہے۔

ماں کی دُعا

کسی شہر میں ایک غریب بیوہ عورت رہتی تھی۔ اس کے دو بیٹے تھے۔ وہ غریب عورت محنت، مزدوری کرکے دونوں بیٹوں کی پرورش کرتی تھی۔ ایک دن دونوں بھائی محلے میں کھیل رہے تھے کہ ایک نیک دل انسان ادھر سے گزرا۔اس نے دونوں بچوں کو کچھ روپے دیئے۔دونوں بھائی پیسے لے کر بہت خوش ہوئے اور کھانے کی چیزیں خریدنے بازار چل دیئے۔ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی سے کہا ’’ تم ان روپوں کا کیا لو گے‘‘؟

ذرامسکرایئے

ایک بیوقوف شخص نے اپنی موٹر سائیکل پر پانچ روپے والے کئی سکے لگائے ہوئے تھے۔ راستے میں ایک دوست ملا تو اس نے وجہ پوچھی۔بیوقوف نے جواب دیا’’مجھے مکینک نے کہا تھا کہ ا س پر پیسے لگائو تو ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔٭٭٭

دلچسپ و عجیب

٭…کیا آپ کو بھنڈی پسند نہیں ؟ کیا آپ کو علم ہے کہ یہ پاکستان کی قومی سبزی ہے۔ ٭…چند پودے ایسے بھی ہیں جو مکھیوں کا شکار کر کے ،انہیں مار کے اپنی غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں جیسا کہ ’’سن ڈیو‘‘۔

پہیلیاں

دو چڑیاں دو ہی پر، کبھی نہ چھوڑیں اپنا گھر آنکھیں لمبا سا اک کیڑا ہے، میٹھا جیسے شیرا ہےشہتوت