اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیع


’’آدمی کا اپنا مال وہ ہے جو اُس نے آگے بھیج دیا، جو چھوڑ گیا وہ مال وارثوں کا ہے‘‘ (صحیح بخاری)

ہم لوگ محنت اور کوشش کر کے روپیہ پیسہ جمع کرتے ہیں تاکہ آنے والے وقت کیلئے کچھ ذخیرہ اپنے پاس محفوظ رہے اور ضرورت کے وقت کام میں لایا جا سکے۔ جو اصل ضرورت کا وقت ہے اور اُس کا پیش آنا بھی برحق ہے اور یہ بھی یقینی ہے کہ اُس وقت صرف وہی کام آئے گا جو اپنی زندگی میں خدائی بینک میں جمع کروا دیا گیا ہو گا۔ وہ جمع شدہ ذخیرہ بھی پورا پورا ملے گا اور اُس میں اللہ جل شانہ کی طرف سے اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔ اُس کی طرف ہم لوگ بہت ہی کم التفات کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’اے ایمان والو! اللہ کی راہ میں ہمارے دیئے میں سے خرچ کرو‘‘ (البقرہ: 254)۔

دُنیا کی یہ زندگی چاہے کتنی ہی زیادہ ہو جائے بہرحال ایک نہ ایک دن ختم ہو جانے والی ہے اور آخرت کی زندگی کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ دُنیا کی زندگی میں اگر اپنے پاس سرمایہ نہ رہے تو اِس وقت محنت مزدوری بھی کی جا سکتی ہے، بھیگ مانگ کر بھی زندگی کے دن پورے کئے جا سکتے ہیں۔ آخرت کی زندگی میں کوئی صورت کمائی کی نہیں ہے، وہاں صرف وہی کام آئے گا جو ذخیرہ کے طور پر آگے بھیج دیا گیا۔

حضرت اسماء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور گن کر نہ دو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن کر دے گا، اور ہاتھ نہ روکو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے اپنا ہاتھ روک لے گا (صحیح بخاری: 2451)

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’قیامت کے دن آدمی ایسا (ذلیل و ضعیف) لایا جائے گا جیسا کہ بھیڑ کا بچہ ہوتا ہے، اسے اللہ جل شانہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا، ارشاد ہو گا کہ: ’’میں نے تجھے مال عطا کیا، حشم و خدام دیئے، تجھ پر اپنی نعمتیں برسائیں، تو نے اِن سب انعامات میں کیا کار گزاری کی؟‘‘ وہ عرض کرے گا کہ: ’’میں نے خوب مال جمع کیا اُس کو ( اپنی کوشش سے ) بہت بڑھایا اور جتنا شروع میں میرے پاس تھا اُس سے بہت زیادہ کرکے چھوڑ آیا، آپ مجھے دُنیا میں واپس کردیں، میں وہ سب آپ کی خدمت میں حاضر کردوں‘‘ ارشاد ہوگا: ’’ مجھے تو وہ بتا جو تو نے زندگی میں (ذخیرہ کے طور پر آخرت کیلئے) آگے بھیجا‘‘ وہ پھر اپنا پہلا کلام دہرائے گا کہ: ’’میرے پروردگار! میں نے خوب مال جمع کیا، اُس کو (اپنی کوشش سے) بہت بڑھایا اور جتنا شروع میں میرے پاس تھا، اُس سے بہت زیادہ کر کے چھوڑ آیا، آپ مجھے دُنیا میں واپس کر دیں، میں وہ سب لے کر حاضر ہوں‘‘ (یعنی خوب صدقہ کروں تاکہ وہ سب یہاں میرے پاس آجائے) چوں کہ اُس کے پاس کوئی ذخیرہ ایسا نہ نکلے گا جو اُس نے اپنے لئے آگے بھیجا ہو، اس لئے اُس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘ (جامع ترمذی: 2427)۔

ایک اور حدیث میں حضور اقدسﷺ کا ارشاد وارد ہے کہ: ’’میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اُس کی دونوں جانب تین سطریں سونے کے پانی سے لکھی ہوئی دیکھیں، پہلی سطر میں ’’لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ لکھا تھا، دوسری سطر میں ’’ما قدمنا وجدنا و ما اکلنا ربحنا و ما خلفنا خسرنا‘‘ (جو ہم نے آگے بھیج دیا وہ پالیا اور جو دُنیا میں کھایا وہ نفع میں رہا اور جو کچھ چھوڑ آئے وہ نقصان میں رہا) لکھا تھا اور تیسری سطر میں لکھا تھا ’’امۃ مذنبۃ و رب غفور‘‘ (امت گناہ گار اور رب بخشنے والا ہے)، (طبقات الشافعیۃ الکبریٰ للسبکی:ج 1،ص150)

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’ جب آدمی مرجاتا ہے تو فرشتے پوچھتے ہیں کہ ’’کیا ذخیرہ اپنے حساب میں جمع کرایا؟ کیا چیز کل کیلئے بھیجی؟ اور آدمی یہ پوچھتے ہیں کہ: ’’کیا مال چھوڑا؟‘‘ (شعب الایمان للبیہقی: 9992)

حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ ’’تم میں کون شخص ایسا ہے جس کو اپنے وارث کا مال اپنے سے زیادہ محبوب ہو؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہﷺ! ہم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث سے زیادہ محبوب نہ ہو‘‘ حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی کا اپنا مال وہ ہے جو اُس نے آگے بھیج دیا اور جو چھوڑ گیا وہ اُس کا مال نہیں بلکہ یہ اُس کے وارث کا مال ہے‘‘ (صحیح بخاری: 6442 )

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: ’’آدمی کہتا ہے: ’’ میرا مال، میرا مال‘‘ اُس کے مال میں سے اُس کیلئے صرف تین چیزیں ہیں، (1) جو کھا کر ختم کردیا، (2) یا پہن کر پرانا کردیا، (3) یا اللہ کے یہاں اپنے حساب میں جمع کرا دیا۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ اُس کا مال نہیں بلکہ وہ سب کچھ دوسرے لوگوں کیلئے چھوڑ جائے گا‘‘ (صحیح مسلم: 2959) 

ہمارے روز بھر کے مشاہدہ میں یہ ایک عجیب بات اکثر و بیشتر آتی رہتی ہے کہ آدمی اکثر ایسے لوگوں کیلئے جمع کرتا ہے، محنت اُٹھاتا ہے، مصیبتیں جھیلتا ہے، تنگی برداشت کرتا ہے، جن کو وہ اپنی خواہش سے ایک پیسہ دینے کا بھی روادار نہیں ہوتا لیکن جمع کرکے آخر کار اُنہیں کیلئے چھوڑ جاتا ہے اور مقدرات اُنہی کو سارے کا وارث بنا دیتے ہیں جن کو وہ ذرا سا بھی دینا نہ چاہتا تھا۔

یہ خیال کہ اولاد کی خیر خواہی کی وجہ سے مال کو جمع کرکے چھوڑنا ہے، نفس کا محض دھوکہ ہے، صرف مال جمع کرکے اُن کیلئے چھوڑ جانا اُن کے ساتھ خیر خواہی نہیں ہے بلکہ شاید بد خواہی بن جائے۔ اگر واقعی اولاد کی خیر خواہی مقصود ہے، اگر واقعی یہ دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے مرنے کے بعد پریشان حال، ذلیل و خوار نہ پھریں تو اُن کو مال دار چھوڑنے سے زیادہ ضروری اُن کو دین دار چھوڑنا ہے کہ بد دینی کے ساتھ مال بھی اوّلاً اُن کے پاس باقی نہ رہے گا بلکہ چند یوم کی شہوات و لذات میں اُڑ جائے گا اور اگر رہا بھی تو اپنے کسی کام کا نہیں ہے۔ اور دین داری کے ساتھ اگر مال نہ بھی ہو تو اُن کی دین داری اُن کیلئے بھی کام آنے والی چیز ہے اور اپنے لئے بھی کام آنے والی چیز ہے اور مال میں سے تو اپنے کام آنے والا صرف وہی ہے جو ساتھ لے گیا اور بس!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں فتح یاب

تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں مہمان انگلینڈ کے ہاتھوں ایک اننگز اور 47 رنز سے شکست کے بعد شاہینوں نے پلٹ کر ایسا وار کیا کہ انگلش شیروں کو بے بس کر دیا۔

دوست وہ جو مشکل میں کام آئے!

کسی جنگل میں ایک درخت پر دو کبوتر نر اور مادہ رہتے تھے۔وہ دونوں ہنسی خوشی زندگی گزاررہے تھے،کچھ دن پہلے مادہ نے انڈے دئیے تھے اور اب وہ ان پر بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ چند دن تک ان میں سے بچے نکلنے والے تھے۔

قاضی صاحب کا فیصلہ

ایک گائوں میں ارمان نامی آدمی رہتاتھا اُس کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی۔ ایک دن اُس نے سوچا کہ وہ نوکری ڈھونڈنے شہر جائے گا۔ اُس کے پاس صرف تین اشرفیاں تھیں۔ وہ اپنے سفر پر نکل گیا۔

مجلس کے آداب

مجلس میں کسی بیٹھے ہوئے آدمی کو اُٹھا کراس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کریں یہ انتہائی بُری عادت ہے۔

سنہری حروف

٭… آپ کا پل پل بدلتا رویہ، آپ سے وابستہ لوگوں کو پل پل اذیت میں مبتلا رکھتا ہے۔

زرا مسکرائیے

ایک لڑکا روتا ہوا گھر آیا،ماں نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ استاد نے مارا ہے۔