مصطفیٰ زیدی منفرد اسلوب کا شاعر
مصطفی زیدی بیسویں صدی کی اردو شاعری کے معروف و مقبول شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔اردو ادب کی تاریخ میںبے شمار شعراء ایسے ملتے ہیں جن کی شاعری کے کئی رنگ ہیں۔
ان میں سے ایک نام مصطفیٰ زیدی کابھی ہے، جنہوں نے اپنی خوبصورت اور مؤثر شاعری سے لاکھوں قارئین کو متاثر کیا۔ مصطفی زیدی کے حوالے سے کچھ لکھنا آسان بھی ہے اور دشوار بھی۔ آسانی کی بات کریں تو ان کی جمال پرستی، رومانوی زندگی اور شاعری پر اظہار خیال کرکے کہانی مکمل کی جا سکتی ہے ۔ اگر دشواری کو دیکھیں تو ان کی شخصیت کی جذباتی پیچیدگیوں، نفسیاتی الجھنوں اور ان کی زندگی کے حالات و واقعات کا منظر نامہ سامنے رکھ کر کچھ لکھنا پڑتا ہے جو ایک مشکل کام ہے۔
پاکستان کے معروف اردو شاعر مصطفیٰ زیدی 16 اکتوبر 1930ء کو بھارتی شہر الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ان کے والد سید لخت حسین زیدی سی آئی ڈی کے ایک اعلی افسر تھے۔ مصطفیٰ زیدی بے حد ذہین طالب علم تھے۔ الہ آباد یونیو رسٹی سے انہوں نے گریجویشن کی۔ نو عمری میں ہی اپنی عمدہ شاعری کے ذریعے لوگوں کو حیران کر دیا تھا اور محض انیس سال کی عمر میں ’’موج مری صدف صدف‘‘ کے عنوان سے پہلا شعری مجموعہ شائع کروا دیا۔ 1952ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کیا۔ کچھ عرصہ اسلامیہ کالج پشاور اور اسلامیہ کالج کراچی میں انگریزی کے لیکچرر کے طور پر کام کیا۔ 1954ء میں سول سروس کا امتحان پاس کرکے اس نظام کا حصہ بنے جسے عرف عام میں بیوروکریسی کہتے ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ وہ ایک انتہائی جذباتی اور جمال پرست انسان تھے اور ایسا لگتا ہے کہ عشق و محبت ان کیلئے محض ایک کھیل تھا۔ان کی محبتوں میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی بیٹی سروج بالا سرن بھی شامل تھی اور اس سے عشق کی پاداش میں انہیں الہٰ آباد بھی چھوڑنا پڑا۔اسلامیہ کالج پشاور میں ملازمت کے دوران میں بھی وہ ایک امریکن کولیگ کی محبت میں گرفتار ہو گئے اور وہاں سے بھی ان کو نکلنا پڑا۔جرمن خاتون ویرا فان سے ان کی شادی بھی محبت ہی کے ایک تجربے کا نتیجہ تھی جس کے بعد وہ ویرا زیدی ہو ئیں۔ مصطفیٰ زیدی کی نظم ’’اعتراف‘‘ ان کی اہلیہ کی محبت، وفا، خلوص اور ایثار کا اعتراف ہے۔
مصطفی زیدی کی بنیادی حیثیت شاعر کی ہے اور شاعری میں گو اُنہوں نے غزلیں کہی ہیں، مگر اُن کا غالب رجحان نظم کی طرف رہا۔بہت کم عمر پائی مگر بہت سے شعرا سے زیادہ لکھا اور عمدہ لکھا،چالیس سال کی زندگی میں ان کے چھ مجموعے شائع ہوئے۔بے وقت موت نے ان کا شعری سفر اچانک ختم کر دیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’موج مری صدف صدف‘‘ ، ’’روشنی‘‘،’’ شہر آذر‘‘،’’ زنجیریں‘‘،’’ قبائے ساز‘‘،’’ گریبان‘‘ اور ’’کوہ ندا‘‘ (جو ان کی وفات کے بعد چھپا)شامل ہیں۔
مصطفی زیدی ایک ایسے شاعر ہیں جن کی تخلیقی صلاحیتوں کو جوش ملیح آبادی اور فراق گورکھپوری جیسے بڑے شاعروں نے بھی سراہا ہے۔انہیں مصطفی زیدی سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ شاعری میں بہت آگے تک جائیں گے مگر ان کی اچانک موت نے ان امکانات کو ختم کر دیا۔ جوش نے مصطفی زیدی کی موت پر اس انداز سے اظہار تعزیت کی تھی ’’زیدی کی موت نے مجھے ایک ایسے جواں سال اور ذہین رفیق سفر سے محروم کردیا جو فکر کے بھیانک جنگلوں میں میرے شانے سے شانہ ملاکر چلتا اور مسائل کائنات سلجھانے میں میرا ہاتھ بٹایا کرتاتھا‘‘۔فراق گورکھپوری مصطفی زیدی کی شاعری اور اس کے اسلوب کے متعلق فرماتے ہیں ’’اس سن و سال میں شاید ہی کسی شاعر کا کلام سلجھا ہوا اور سانچے میں ڈھلا ہوا دستیاب ہو سکے گا۔ ان کا مجموعہ ’’کلیات مصطفی زیدی‘‘ ایک نرم و نازک اور شاداب شاخ ہے جس کے ہر پیچ و خم میں سفید گلابی اور کئی ہلکے رنگ کی کلیاں آہستہ آہستہ کھلتی جا رہی ہیں۔
مصطفی زیدی کی زندگی اور شخصیت ان کی جذباتی زندگی کے بوجھ تلے اس قدر دبی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر انہیں نظم کا شاعر کہا جاتا ہے تاہم ان کی غزلیں بھی کم معیار کی نہیں ہیں ۔
1969 میں یحییٰ خان کا مارشل لا لگا تو پہلے معطل ہوئے اور پھر ملازمت سے فارغ کر دیے گئے، جس کے نتیجے میں وہ بے پناہ ذہنی اور مالی دشواریوں کا شکار ہوئے۔ ’’کوہ ندا‘‘ میں بہت سی نظمیں اس عہد ابتلا کی یاد دلاتی ہیں، وہ 12اکتوبر 1970ء کو پراسرار موت سے دوچار ہوئے۔ جس کے بارے میں آج بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے خود کشی کی یا انہیں قتل کیا گیا۔ عدالتی طور پر ان کی موت کو خود کشی قرار دیا گیا تاہم ان کے کئی جاننے والے اسے تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ اسے قتل قرار دیتے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ ان کا یہ معروف شعر بھی اس اندھی واردات کی طرف اشارہ کرتا ہے:
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے