سوء ادب : پاگل خانہ (2)
ایک صاحب اپنی گاڑی میں شہر میں جا رہے تھے کہ پاگل خانے کی دیوار کے برابر میں اُن کی گاڑی کاٹائر پنکچر ہو گیا۔ وہ نیچے اُترے، ٹائر کھولا ،سٹپنی نکالی،اُسے کسنے لگے تو جو ڈھبریاں نکال کر اُنہوں نے رکھی تھیں وہ غائب تھیں ۔بچے اِدھر اُدھر کھیل رہے تھے شاید وہ اُٹھا کر لے گئے ہوں ۔وہ صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیاہو گا کہ اتنے میں اوپر دیوار پربیٹھا ایک پاگل بولا ’’کسی دوسرے ٹائر سے دو ڈھبریاں نکال کراسے لگا لو اور ورکشاپ لے جائو ‘‘۔اُن صاحب نے سر اُٹھا کر حیرت سے اوپر دیکھا ور بولے ،’’تم پاگل ہو ؟‘‘ تو وہ بولا ،’’میں پاگل ہوں، بیوقوف نہیں ‘‘۔
ایک پاگل خانے میں ہر چھ ما ہ بعد جائزہ لیا جاتا تھا کہ کون سا پاگل کس حد تک ٹھیک ہو چکا ہے اور اُسے کب تک وہاں سے فارغ کیا جا سکتا ہے ۔اِس کے لیے ایک بورڈ بیٹھتا اور اُنہیں بار بار انٹرویوکرتا ۔ایک پاگل سے جب پوچھا گیا کہ یہاں سے جانے کے بعد تم کیا کرو گے تو اُس نے کہا کہ میں جانے سے پہلے پتھر مار مار کر اِن ساری کھڑکیوں کے شیشے توڑ دوں گا ۔اِ س کے بعد انٹر ویو ختم ہو گیا ۔
جب چھ ماہ کے بعد دوبارہ انٹر ویوکے لیے بُلایا گیا تو وہ با لکل نارمل باتیں کر نے لگا۔ جس پر انٹر ویو کرنے والوں کے دل میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔
اُنہوں نے جب اُس سے پوچھا کہ یہاں سے جا کر تم کیا کرو گے تو اُس نے کہا کہ میں تین چار جوڑے جوتوں کے خریدوں گا، تین چار سُوٹ خریدوں گا اور ایک انڈر ویئر۔
’’ایک انڈر ویئر کیوں ؟‘‘
تو اُس نے جواب دیا کہ میں ’’ اُس میں سے لاسٹک نکالوں گا اور اُس سے غلیل بنا ئوگا اور یہاں آکر اِن کھڑکیوں کے سارے شیشے توڑ دوں گا۔ اُس کے بعد انٹر ویو ختم ہو گیا‘‘۔
پانی پہ لکھا کہانی
محمد عاصم بٹ کے کئی تعار ف ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک، اگر گنوانے بیٹھ جائوں تو سارا وقت اسی پہ خرچ ہو جائے۔بہر حال یہ اِس کا نیا ناول ہے ۔فکشن کبھی بھی میری چائے کی پیالی نہیں رہا شروع شروع میں کوئی افسانے یا چند ناول پڑ ھ لیے ہوں تو اُس کی قسم نہیں دے سکتا پر اب یہ ناول پڑھ کر مجھے شدت سے احساس ہُوا ہے کہ فکشن تو پڑھنی چاہیے جبکہ اِس شاعری نے مجھے کہیں کا بھی نہیں رکھا۔
ناول پڑھ کر مجھے افسوس بھی ہُوا کہ یہ ختم کیوں ہو گیا، اسے ابھی ختم نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ ابھی اور آگے چل سکتا تھا کیونکہ محبت کبھی ختم نہیں ہوتی ما سوائے اپنے منطقی انجام تک پہنچنے کے ۔جب تک پیاس ہے تب تک محبت ہے لیکن اِس بات کی انتہائی خوشی تھی کہ ناول کے ختم ہونے کے باوجود محبت ختم نہیں ہوئی تھی ۔
پس سرور عرفان جاوید نے لکھا ہے جن کے بقو ل ’’اُس کی زندگی میں دسیوں مر دآئے ہوں گے لیکن مسافر اُس کی زندگی میں آیا تو ایسا آیا کہ فقط وہی آیا ،مسافر کی زندگی میں بھی ایک ہی ایواآئی جو اُس کی ہم روح ،ہم جان دم دم ہم دم ٹھہر ی ۔سو یہ اُس فسو ںکی کہانی ہے ،اُس پریم کا سنگیت ہے، عشق وجذبہ ہی اساطیری دیوی کے چرنوں میں اک نذرانہ ہے جسے دنیا والے رتی دیوی کہتے ہیں،کاما دیوتا کی ہم جان رتی دیوی۔
کتاب کے آخر میں محمد عاصم بٹ کی فکشن کے بار ے میں جن مشاہیر کی مختصر آرا درج کی گئی ہیں اُن میں ڈاکٹر انوار سجاد ،ڈاکٹر رشید امجد ،احمد جاوید،ڈاکٹر انور سدید ،آصف فرخی، مستنصر حُسین تارڈ، صدیق عالم، سلمیٰ اعوان ،محمد حمید شاہد ،ڈاکٹر امجد طفیل ،علی اکبر ناطق اور دیگراان شامل ہیں۔
غزل
کوئی تھا ہی نہیں جس سے تقاضا کر رہا تھا میں
نہ جانے وہ بُرا تھا یا کہ اچھا کر رہا تھا میں
مرے اطراف جیسے کہیں غائب ہو چُکے تھے سب
نہیں معلوم کس جانب اشارہ کر رہا تھا میں
نہیں تھا پڑنے والا بیچ میں کوئی وہاں جس دم
بہت فارغ تھا میں اورخود سے جھگڑا کر رہاتھا میں
میں خود تو تھا کسی اندر کی گہر ی نیند ہی میں گُم
کوئی ہنگامہ تھا تُوجس کو برپا کر رہا تھا میں
وہاں پر دیکھنے والے نہ تھے موجود ہی کوئی
توپھر کس کے لیے سارا تماشا کر رہا تھا میں
کسی سے استفادہ کر رہا اُس کے نہ ہونے کا
نہیں معلوم تھوڑا یا زیادہ کر رہا تھا میں
نتیجہ پھر نکلنے جا رہا تھا وہی پہلے سا
نہیں جو کیا تھا اُس کو دوبارہ کر رہا تھا میں
نیا میرے لیے تو اجنبی اُس کے لیے بھی تھا
سو وہ کام اِس لیے بھی تھوڑا تھوڑا کر رہاتھا میں
ظفر، وہ کام شاید کرتے کرتے سیکھ بھی جائوں
نہیں آتا تھا وہ مجھ کو لہٰذا کر رہا تھا میں