امانت داری اور اس کے احکام
اسلام میں امانت داری کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ جل شانہُ فرماتے ہیں بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو(سورۃ النساء: 58)۔ رسول اللہﷺ کی ز ندگی امانت داری کا بہترین نمونہ تھی۔آپﷺکی ا مانت داری ہی کی وجہ سے کفار مکہ بدترین دشمن ہونے کے باوجود آپﷺ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے۔
جو لوگ امانت داری کے وصف سے آراستہ ہوتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی بروقت ادائیگی کرتے ہیں وہ لوگوں میں پسندیدہ اور قابلِ تعریف ہوتے ہیں۔
امانت داری ایمان والوں کی بہترین صفت ہے اور ایک مسلمان کا امانت دار ہونا بہت ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں(مسند احمد، مشکوۃ :کتاب الایمان) ۔ آج کل ہم سمجھتے ہیں کہ امانت داری کا تعلق صر ف مال سے ہے اور اگر کسی نے ہمارے پاس کوئی مال رکھوایا تو اس کی حفاظت کرنا اور اسے واپس کر دینا ہی امانت داری ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن جس طرح یہ امانت ہے اسی طرح اور بھی بہت ساری چیزیں امانت میں داخل ہیں۔ اللہ کریم اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی امانت داری ہے چنانچہ نماز پڑھنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکوٰۃ دینا، حج کرنا، سچ بولنا اور دیگر نیک اعمال ادا کرنا بھی امانت ہے۔ اسی طرح انسان کے اعضاء مثلاً زبان، آنکھ، کان، ہا تھ وغیرہ بھی اللہ پاک کی امانت ہیں اور ان اعضاء کو گناہوں اور فضولیات سے بچانا ان اعضاء کے معاملے میں امانت داری ہے۔ دوسرے کے راز کی حفاظت کرنا، پوچھنے پر درست مشورہ دینا، مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کرنا، مزدور اور ملازم کا اپنا کام مکمل طور پر پورا کرنا بھی امانت داری میں داخل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم کے متعدد مقامات پر امانت داری کی تاکید فرمائی ہے، ارشاد باری ہے ’’تو جو امین بنایا گیا ا س کو چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اور چاہیے کہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرے‘‘ (سورۃ البقرہ) امانت کی ادائیگی میں بنیادی چیز تو مالی معاملات میں حقدار کو اس کا حق دے دینا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ اور بھی بہت سی چیزیں امانت کی ادائیگی میں داخل ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو مسلمانوں کا حاکم بنا پھر اس نے ان پر کسی ایسے شخص کو حاکم مقرر کیاجس کے بارے میں یہ خود جانتا ہے کہ اس سے بہتر اور اس سے زیادہ کتاب و سنت کا عالم مسلمانوں میں موجود ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ اُس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی‘‘(معجم الکبیر، عمر:11216)
نظامِ عدل و عدالت کی روح ہی یہ ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے۔ فریقین میں سے اصلاً کسی کی رعایت نہ کی جائے۔ علماء نے فرمایا کہ حاکم کو چاہئے کہ پانچ باتوں میں فریقین کے ساتھ برابر سلوک کرے (1) اپنے پاس آنے میں جیسے ایک کو موقع دے، دوسرے کو بھی دے (2) نشست دونوں کو ایک جیسی دے (3) دونوں کی طرف برابر متوجہ رہے (4) کلام سننے میں ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طریقہ رکھے (5) فیصلہ دینے میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دِلائے۔ حدیث شریف میں ہے کہ انصاف کرنے والوں کو قربِ الٰہی میں نورکے منبر عطا کئے جائیں گے(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل، ص1015، الحدیث: 18(1827)
حضر ت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’تم سچائی کو لازم پکڑ لوکیونکہ سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور بیشک نیکی جنت میں پہنچا دیتی ہے اور آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کا قصد کرتارہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتاہے اور تم جھوٹ سے بچوکیونکہ جھوٹ نافرمانی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نافرمانی دوزخ میں لے جاتی ہے،اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے،یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتاہے‘‘ (ترمذی: ص18،ج1)۔
رسول اکرمﷺ نے فرمایا ’’جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو سپرد کردی گئی جو ان کے اہل اورقابل نہیں تو قیامت کا انتظار کرو‘‘(صحیح بخاری:59)۔فرمایا کہ ’’کسی آدمی کی تعریفیں ہوں گی کہ کیسا عقل مند، کیسا خوش مزاج اور کیسا بہادر ہے، حالاں کہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان داری نہ ہوگی‘‘(صحیح بخاری، کتاب الفتن)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا یا رسول اللہ ﷺ! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی؟ فرمایا جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کر دیئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو‘‘ (صحیح بخاری: 6496)۔
حضرت ابوموسیؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’وہ امانت دار مسلمان خزانچی خیرات کرنے والوں میں سے ہے جو خوشی کے ساتھ پورا پورا اس آدمی کو دے دیتا ہے جس کو دینے کا حکم دیا گیا ہو، جو جتنا خرچ کرنے کا حکم کیا گیا ہو اتنا ہی خرچ کرتا ہو اور جس کو دینے کا حکم دیا گیا ہو اس کو دے دیتا ہو (صحیح مسلم: 2363)۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر (اسے راز میں رکھنے کیلئے) دائیں بائیں مڑ کر دیکھے تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے (جامع ترمذی: 1959)
انسانی زندگی کا دوسرا اہم وصف امانت داری ہے جس کی اہمیت وضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے نبی کریمﷺ نے جامع انداز میں فرمایا کہ ’’ اس شخص کا ایمان مکمل نہیں جس میں امانت و دیانتداری کی صفت نہیں (بیہقی)رسول اکرم ﷺ نے اس کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے، جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو سپرد کردی گئی جو ان کے اہل اور قابل نہیں تو قیامت کا انتظار کرو(صحیح بخاری)۔
جس طرح آج ہمارے معاشرے میں دیگر کئی اچھائیاں دَم توڑتی دکھائی دیتی ہیں وہیں امانت داری کا بھی فقدان نظر آتاہے۔ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ امانت دار اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے والے افراد کو بعض کم عقل لوگ بے وقوف سمجھنے لگے ہیں۔ معاشرے کی سوچ اس قدر منفی ہوچکی ہے کہ برائی کو اچھائی اور اچھائی کو برائی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اندر امانت داری کی صفت کو اجاگر کریں اور دوسروں کے حقوق پوری طرح ادا کریں۔ امانت داری کا تقاضا ہے کہ مکمل دیانت داری سے کام کو انجام دیا جائے پورا وقت اورپوری طاقت اس کیلئے صرف کی جائے، ورنہ وہ مالک کے ساتھ خیانت کر نے کا مرتکب ہوگا اوراس کا بھی حساب روزمحشر دینا ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہمیں امانت داری کے حقوق صحیح معنوں میں ادا کر نے کی توفیق نصیب فرمائے ۔