سوء ادب : دو گویّے
مشہور امریکی سنگر ایلویس پریسلے کہیں جا رہے تھے کہ ایک گائوں سے گزرتے ہوئے اُنہیں سو ڈالر کی ضرورت پڑگئی ۔وہ ایک مقامی بینک میں گئے اور وہاں سو ڈالر کا چیک پیش کیا جس پر بینک والوں نے کہا کہ چیک کیش کرنے کیلئے آپ کی شناخت ضروری ہے جس پرایلویس پریسلے نے کہا : ’’بھائی میں ایلویس پریسلے ہوں کیا آپ مجھے نہیں جانتے اور آپ نے میرا گانا کبھی نہیں سُنا ؟‘‘
جس پر بینک والوں نے جواب دیا کہ ہم ایلویس پریسلے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں اور ہم اُن کا گانا بھی بڑے ذوق و شوق سے سنتے ہیں لیکن اِس کا کیا ثبوت ہے کہ آپ ہی ایلویس پریسلے ہیں البتہ اگرآپ گانا سُنادیںتو ہم آپ کی آواز پہچان لیں گے اور ادائیگی کردیں گے۔
جس پرایلویس پریسلے نے چیک واپس لے لیا اور یہ کہتے ہوئے بینک سے نکل گئے کہ اگر میں سو ڈالر میں گانا گا دوں تو میں واقعی ایلویس پریسلے نہیں ہوں !
ایران کے ایک بہت بڑے بینک میں اُس کی سالگرہ کے حوالے سے ایک جشن منایا جا رہا تھا جس کیلئے اُنہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اِس تقریب کے دوران مشہور مغنیہ مادام گوگوش کا گانا بھی ہونا چاہیے۔
چنانچہ ،وہ مغنیہ کے پاس گئے ،اُن سے با ت کی اور گانے کیلئے اُن کا معاوضہ پوچھا ۔مغنیہ نے اپنا معاوضہ بتایا تو وہ بولے ،
’’اتنے پیسے تو ہم نہیں دے سکتے ،یہ تو ہمارے جنرل منیجر کی تنخواہ کے برابر ہیں ‘‘
جس پر مغنیہ بولی ،’’تو پھر گانا بھی اُسی سے سُن لینا !‘‘
گل ُمعانی ِ
یہ ہمارے البیلے شاعر اکبر معصوم کے کُلّیات ہیں جنہیں انعام ندیم اور کاشف حُسین غائر نے ترتیب دیا ہے جو بذاتِ خود جدید اُردو غزل کے اہم شُعرا میں شمار ہوتے ہیں ۔اسے رنگِ ادب کراچی نے شائع کیا ہے اِس میں دو اُردو مجموئے ’’اور کہاں تک جانا ہے‘‘،’’بے ساختہ اور ایک پنجابی مجموعہ نیندر پچھلے پہر دی‘‘ شامل ہیں پسِ سرورق ممتاز بھارتی نقاد ڈاکٹر شمیم حنفی نے لکھا ہے جن کے مطابق ’’اکبر معصوم کی غزل اپنے ہم عصروں کی غزل سے الگ اپنا ایک منفرد جمالیاتی ذائقہ بھی رکھتی ہے اکا دُکا مماثلتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے دور کی غزلیہ شاعری میں کم و بیش ہر غزل گوکے یہاں مضامین کی تکرار کا منصر نمایا ہے، اکبر معصوم کی شاعری میں بھی اِس کی مثالیں ملتی ہیں مگر ہر فطری او ر باکمال غز ل گو کی طرح اِن کاطرزِ احساس ہمیشہ تکرار کے عنصر کو دبا دیتا ہے یا اِن پر ایک پردہ سا ڈال دیتا ہے۔ اِس کے علاوہ اِس میں ایک خود کار قسم کی غنائیت بھی ہوتی ہے ۔
اکبر معصوم کی شاعر ی اِس اُداسی اور غنائیت کے فیضان سے مالامال ہے ۔اِس شاعر ی کے کینوس پر پھیلے ہوئے دُھندلے رنگوں ،اظہار و بیان کی آہستہ روی اور سادگی سے پیدا ہونے والے مدھم راگوں سے مرتب ہونے والی کیفیت میں کشش بہت ہے ،متاثر کرنے اور پڑھنے والے کے احساسات پر چھا جانے کی طاقت بہت ہے ۔ اسی لیے مجموعی طور پر وہ صرف ایک مانوس اور جانے پہچانے تجربوں سے بھری ہوئی دنیا کے شاعرنہیں ہیں وہ ہمیں ایک جہانِ نا معلوم کا راستہ بھی دکھاتے ہیں ‘‘
محمد سلیم الرحمٰن کے مطابق ’’وہ ایک آہنی اعصاب والا فرد ہے جو مصائب سے نبرد آزما ہونے کا گُر جانتا ہے ،مجھے جو چیز متاثر اور مسحور کرتی ہے وہ اُس کی شاعری ہے جب اِس کی پہلی کتاب اور کہاں تک جانا ہے‘‘ کی قرأت شروع کر دوں تو اندر سے آواز آتی ہے یہ شاعری کس قدر حیرت افزا ہے جس کے سامنے زعف ہائے دیگر بھی موہمل ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اکبر کی دوسری کتاب بے ’’ساختہ حا ل ہی میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی ہے جس میں اُس کا معیار برقرار ہے ۔ا ِس کی بہترین غزلیں ٹکسال کے نو دمیدہ سکّوں کی مانند دمکتی ہیں وہ بجائے خود معجز ندائی ہیں ،استعجاب کا اظہاریہ ہیں ،ایک ہلکی آنچ پر سلگتی اُداسی ہے۔
اندھیرے کے پیچھے ضیائے روشن اور ذات کا ابہام آمیز اظہار ہیں یا کہہ لیجئے کہ وہ سب کچھ ہیں جن کا ہم غزل سے انسلاک کر سکتے ہیں ۔آپ ایک شاعرسے اور کیا مطالبہ کر سکتے ہیں جس نے اپنی اُفتاد کو زیست و عشق کی لا استثنا آرزو میں منقلب کر دیا ہو ۔
اِن کے علاوہ احمد جاوید اور عبا س عالم کے تحریر کردہ دیباچے بھی شامل ہیں ۔
گیٹ اپ عمدہ صفحات 352اور قیمت 1500جبکہ انتساب اکبر معصوم سے محبت کرنے والوں کے نام ہے ۔
غز ل ۔۔۔!
دھوپ سے چاندنی بناتاہوں
آنسوئوں سے ہنسی بناتاہوں
رات کی کھینچتاہوں تصویریں
چاند سے شاعری بناتاہوں
اور اِس ہجر کے سمندر میں
وصل کی جل پری بناتاہوں
کر رہاہوں میں ایک پھول پہ کام
روز اک پنکھڑی بناتاہوں
میں وہ پاگل ہوں جاتے لمحوں سے
آنے والی صدی بناتاہوں
پوچھتے کیا ہواپنے آپ کو میں
روز ہی آدمی بنایا ہوں
مجھ سے شکوہ تو ایسے کرتے ہو
جیسے میں زندگی بناتاہوں
برسوں پہلے بنا رہا تھا جو شے
میں تو اب تک وہی بناتاہوں
لفظ پتّوں کی طرح اُڑنے لگے چاروں طرف
کیا ہوا چلتی رہی آج مرے چاروں طرف