نعمتوں کی قدردانی
قیامت کے دن میدانِ حشر میں جہاں نیکیاں اور برائیاں تولی جائیں گی تو وہاں اس چیز کا بھی مطالبہ اور محاسبہ کیا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنی نعمتیں عطا فرمائی تھیں اُن کا کیا حق اور کیا شکر ادا کیا؟ بندہ کے پاس ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کی ہوئی ہے۔
ہر چیز کا ایک حق ہے اوراس حق کی ادائیگی کا مطالبہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور ضرور ہونا ہے ۔ قرآنِ مجید میں سورۃٔ التکاثر میں بھی اس کا ذکر موجود ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندہ سے اپنی نعمتوں کا بھی سوال فرمائیں گے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بدن کی صحت، کانوں کی صحت اور آنکھوں کی صحت کے بارے میں سوال ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں اپنے لطف سے عطا فرمائیں ان کو اللہ تعالیٰ کے کس کام میں خرچ کیا؟۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ سورۂ بنی اسرائیل میں ہے کہ ’’ بلا شبہ قیامت والے دن ہر شخص سے اس کے کان، آنکھ اور دل کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ان کا استعمال کہاں کیا؟‘‘ حضور اقدسﷺ کا ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ کل قیامت کے دن آدمی سے جن نعمتوں کے بارے سوال کیا جائے گا ان میں سے ایک چیز ’’بے فکری‘‘ ہے اور دوسری چیز ’’بدن کی صحت و سلامتی‘‘ بھی ہے اور یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ مجاہدؒ کہتے ہیں کہ ’’دنیا کی ہر لذت نعمتوں میں داخل ہے جس کے بارے میں سوال ہوگا‘‘۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ’’ اس میں عافیت بھی داخل ہے‘‘۔ ایک شخص نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ ’’قرآن مجید میں جو یہ ہے کہ ’’پھر اس دن نعمتوں کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا؟‘‘ اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ’’گیہوں کی روٹی اور ٹھنڈا پانی مراد ہے ان کے بارے میں بھی سوال ہو گا اور رہنے کیلئے مکان کے بارے میں بھی سوال ہوگا‘‘۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ ’’جب یہ مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! کن نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا؟ آدھی بھوک روٹی ملتی ہے اور وہ بھی ’’جو‘‘ کی ( اور پیٹ بھر کر روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی)‘‘ تو وحی نازل ہوئی کہ کیا پاؤں میں جوتا نہیں پہنتے؟ کیا ٹھنڈا پانی نہیں پیتے؟ یہ بھی تو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔
ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہؓ نے اس آیت شریفہ کے نازل ہونے پر عرض کیا: ’’ یا رسول اللہﷺ! کن نعمتوں کے بارے میں سوال ہو گا؟ کھجور اور پانی صرف یہ دو چیزیں کھانے اور پینے کو ملتی ہیں اور ہماری تلواریں (جہاد کیلئے) ہر وقت ہمارے کندھوں پر رہتی ہیں اور دشمن ہر وقت سامنے ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ دو چیزیں بھی سکون اور اطمینان سے نصیب نہیں ہوتیں‘‘۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’عنقریب نعمتیں میسر ہونے والی ہیں‘‘۔
ایک حدیث میں حضور اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ: ’’ قیامت والے دن جن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا ان میں سب سے اوّل یہ سوال ہوگا کہ ہم نے تیرے بدن کو تندرستی عطا فرمائی ( تونے اس کا کیا حق ادا کیا؟)، ہم نے ٹھنڈے پانی سے تجھ کو سیراب کیا ( اس میں تونے ہم کو کس طرح راضی کیا؟)‘‘۔
ایک اور حدیث میں وارد ہے کہ قیامت والے دن جن جن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا وہ یہ ہیں : (1) روٹی کا ٹکڑا کہ جس سے پیٹ بھرا جاتا ہے ۔ (2) پانی کہ جس سے پیاس بجھائی جاتی ہے ۔ (3) کپڑا کہ جس سے بدن ڈھانکا جاتا ہے ۔
ایک مرتبہ دوپہر کے وقت سخت دھوپ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ پریشان ہو کر گھر سے چلے، مسجد میں پہنچے ہی تھے کہ حضرت عمر فاروقؓ بھی اسی حالت میں تشریف لے آئے،حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بیٹھا ہوا دیکھ کر دریافت کیا ’’تم اس وقت یہاں کہاں؟‘‘ فرمایا: ’’بھوک کی بے تابی نے پریشان کیا‘‘۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ’’واللہ! اسی چیز نے مجھے بھی مجبور کیا کہ کہیں جاؤں‘‘۔ یہ دونوں حضرات یہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ سردار دو عالم نبی اکرمﷺ تشریف لے آئے، ان کو دیکھ کر دریافت فرمایا ’’تم اس وقت کہاں؟‘‘ عرض کیا یارسول اللہﷺ! ’’بھوک نے پریشان کیا ، جس سے مضطرب ہوکر نکل پڑے ‘‘۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’اسی مجبوری سے میں بھی آیا ہوں‘‘۔تینوں حضرات اکٹھے ہوکر حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان پر پہنچے ، وہ تشریف نہیں رکھتے تھے۔ بیوی نے بڑی مسرت و افتخار سے ان حضرات کو بٹھایا ، حضور اقدسﷺ نے دریافت فرمایا : ’’ابو ایوبؓ کہاں ہیں ؟ ‘‘ عرض کیا :’’ابھی حاضر ہوتے ہیں، کسی ضرورت سے گئے ہوئے ہیں‘‘۔ اتنے میں ابو ایوبؓ بھی حاضر خدمت ہو گئے اور فرطِ خوشی میں کھجورکا ایک بڑا سا خوشہ توڑ لائے ، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’سارا خوشہ کیوں توڑا؟ اس میں کچی اور ادھ کچری بھی ٹوٹ گئیں،چھانٹ کر پکی ہوئی توڑ لیتے‘‘۔ انہوں نے عرض کیا : ’’ اس خیال سے توڑا کہ ہر قسم کی سامنے ہوں جو پسند ہو وہ نوش فرماویں‘‘۔ (کیونکہ بعض مرتبہ پکی ہوئی سے آدھ کچی زیادہ میٹھی ہوتی ہیں۔ خوشہ سامنے رکھ کر جلدی سے گئے اور ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور جلدی جلدی کچھ تو ویسے ہی بھون لیا کچھ سالن تیار کرلیا ۔
حضور اقدسﷺ نے ایک روٹی میں تھوڑا سا گوشت رکھ کر ابو ایوبؓ کو دیا کہ یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پہنچادو ، اس کو بھی کئی دن سے کچھ نہیں مل سکا ۔ وہ فوراً پہنچاکر آئے۔ ان حضرات نے بھی سیر ہوکر نوش فرمایا، اس کے بعد حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’دیکھو ! یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں ،روٹی ہے ، گوشت ہے، ہر قسم کی کچی اور پکی کھجوریں ہیں ‘‘۔یہ فرماکر نبی اکرمﷺ کی پاک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ارشاد فرمایا: ’’اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہی وہ نعمتیں ہیں جن سے قیامت میں سوال ہو گا‘‘۔
جن حالات کے تحت میں اس وقت یہ چیزیں میسر ہوئی تھیں ان کے لحاظ سے صحابہ کرامؓ کو بڑی گرانی اور فکر پیدا ہوگئی کہ ایسی مجبوری اور اضطرار کی حالت میں یہ چیزیں میسر آئیں اور ان پر بھی سوال و حساب ہوگا؟۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو ضروری ہے ہی، لہٰذا جب اس قسم کی چیزوں پر ہاتھ ڈالو تو اوّل بسم اللہ پڑھو اور جب کھا چکو تو کہو: ’’الحمد للہ‘‘۔ اس دعاء کا پڑھنا شکر ادا کرنے میں کافی ہے‘‘۔
حضرت عمرؓ کا گزر ایک شخص پر ہوا جو کوڑھی بھی تھا اور اندھا، بہرا، گونگا بھی تھا۔ آپؓ نے اپنے ساتھیوں سے دریافت فرمایا: ’’ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی کچھ نعمتیں اس شخص پر بھی دیکھتے ہو؟‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا ’’اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی کونسی نعمت ہے؟‘‘۔ آپؓ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا یہ پیشاب سہولت سے نہیں کر سکتا؟‘‘۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ’’قیامت میں تین دربار ہیں: ایک دربار میں نیکیوں کا حساب ہے۔ دوسرے دربار میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حساب ہے۔ تیسرے دربار میں گناہوں کا مطالبہ ہے۔ نیکیاں نعمتوں کے مقابلہ میں ہو جائیں گی اور برائیاں باقی رہ جائیں گی جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے تحت میں ہوں گی۔ ان سب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی جس قدر نعمتیں ہر آن اور ہر دم آدمی پر ہوتی ہیں ان کا شکر ادا کرنا اور ان کا حق بجا لانا بھی آدمی کے ذمہ ہے۔ اس لئے جتنی مقدار بھی نیکیوں کی پیدا ہوسکے ان کو حاصل کرنے میں کمی نہیں کرنی چاہیے اور کسی مقدار کو بھی زیادہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہاں پہنچ کر معلوم ہوگا کہ کتنے کتنے گناہ ہم نے اپنی آنکھ ، ناک ، کان اور دوسرے بدن کے حصوں سے ایسے کیے ہیں جن کو ہم گناہ بھی نہ سمجھے ۔
حضور اقدسﷺ کاا رشاد ہے کہ : ’’ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کی قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کے یہاں پیشی نہ ہو کہ اس وقت نہ کوئی پردہ درمیان میں حائل ہوگا اور نہ کوئی ترجمان اور وکیل وغیرہ۔دائیں طرف دیکھے گا تو اپنے اعمال کا انبار ( ڈھیر) لگا ہوگا ۔ بائیں طرف دیکھے گا تب بھی یہی منظر ہوگا ۔ جس قسم کے بھی اچھے یا برے اعمال کیے ہیں وہ سب ساتھ ہوں گے ۔ جہنم کی آگ سامنے ہو گی۔ اس لئے جہاں تک ممکن ہو صدقہ دے کر جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ! خواہ کھجور کا ٹکڑا صدقہ کرکے ہی جہنم کی آگ سے کیوں نہ بچا جائے ۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن سب سے پہلا سوال یہ کیا جائے گا کہ ہم نے تجھے صحت مند بدن عطا کیا تھا اور پینے کیلئے ٹھنڈا پانی دیا تھا تو نے ان کا کیا حق ادا کیا ؟‘‘۔ دوسری حدیث میں آتا ہے : ’’اس وقت تک میدانِ حساب سے نہ ہٹ سکے گا جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ کرلیا جائے (1) عمر کس کام میں خرچ کی؟۔ (2) جوانی کس مشغلہ میں صرف کی؟۔ (3) مال کس طریقہ سے کمایاتھا؟ (4) اورکس طریقہ سے خرچ کیا یعنی کمائی اور خرچ کے طریقے جائز تھے یا ناجائز؟)۔ (5) جو کچھ علم حاصل کیا (خواہ کسی درجہ کا ہو) اس پر کیا عمل کیا؟۔ ( یعنی جو مسائل معلوم تھے ان پر عمل کیا کہ نہیں؟)۔