احمد راہی ترنجن سے رگ جاں تک

تحریر : ڈاکٹر عرفان احسن پاشا


احمد راہی نے تخلیق فن کا آغاز اردو شاعری سے کیا تھا۔ بعد میں وہ پنجابی شاعری کی طرف متوجہ ہوئے اور اس میں بڑا نام پیدا کیا۔ اپنی پنجابی شاعری کی ہمہ گیر مقبولیت کے باوجود وہ اردو شاعری سے کبھی دست کش نہ ہوئے۔

 احمد راہی نے اردو میں غزلیں بھی کہی ہیں اور نظمیں بھی لکھیں مگر ان دونوں اصناف میں قدر مشترک ایک تو ان کے دکھ کی آنچ ہے جس نے انہیں شروع سے آخر تک بے چین رکھا اور دوم زندگی اور انسان کے بارے میں ان کا وہ ترقی پسند نظریہ ہے جس پر وہ آخر دم تک قائم رہے۔ چنانچہ انسانی محنت کا احترام اور انسانی وقار کی بحالی کی تمنا کو ان کا منشور تخلیق قرار دیا جا سکتا ہے۔ احمد راہی کا شعری مجموعہ ’’ترنجن‘‘ پنجابی ادب کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔اردو شاعری کا ایک ہی مجموعہ ’’رگِ جاں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں بھی ’’ترنجن‘‘ کی روشنی جگہ جگہ جھلکتی ہے اور ایک ایک مصرعہ ایک ایک لفظ کو منور کرتی چلی جاتی ہے۔ انہیں ’’تمغہ حسن کارکردگی‘‘ سے بھی نوازا گیا۔

بقول حمید اخترلاہور جیسے شہر میں دس بیس نوجوان ہجرت کے غموں اور اپنی ذاتی پریشانیوں سے بالاتر ہو کر اس نئے ملک کو استحصالی نظام سے پاک کرکے عدل و انصاف اور مساوات پر مبنی ایک نیا معاشرہ تشکیل دینے میں مصروف تھے۔ احمد راہی نوجوان ادیبوں اور شاعروں کے اس گروہ میں پیش پیش تھے، چنانچہ لاہور میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے ہفتہ وار جلسوں میں جو لوگ برسوں پابندی اور عقیدت کے ساتھ شرکت کرتے رہے۔ ان میں احمد ندیم قاسمی، ظہیر کاشمیری، صفدر میر، اختر سلیم،عبداللہ ملک، عارف عبدالمتین، نازش کاشمیری، حسن اعرافی، ابن انشاء اور قمر یورش کے نام نمایاں ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ تھے ۔احمد راہی، صفدر میر اور عبداللہ ملک وغیرہ انجمن کی سرگرمیوں میں زیادہ متحرک تھے۔

 احمد راہی نے اس زمانے میں کمیونسٹ پارٹی میں باقاعدہ شمولیت بھی اختیار کر لی تھی ۔اس سلسلے میں انہوں نے بہت سی صعوبتیں بھی برداشت کیں بعدازاں پارٹی کا شیرازہ منتشر ہونے کی وجہ سے وہ کئی ماہ تک بے روزگار رہے، آمدنی کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا، معاشی مشکلات سے نجات حاصل کرنے کیلئے اس زمانے میں انہوں نے فلمی دنیا کا رخ اختیار کیا اور ایسے ایسے گیت لکھے جو زبان زد عام ہو ئے۔

احمد راہی کی پنجابی فلموں کے گانے بے شمار لوگوں کو زبانی یاد ہیں۔ ان کے کچھ دوستوں نے غالباً ان گانوں کو کتابچے کی شکل میں شائع بھی کرا دیا تھا لیکن راہی نے کم از کم نصف درجن اردو فلموں کے بھی نہایت خوبصورت نغمے تحریر کئے۔

احمد راہی کی تخلیقی صلاحیتوں اور اچھا شاعر ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے، یہ صحیح ہے کہ انہوں نے کم لکھا مگر جتنا کچھ بھی لکھا وہ اپنے معیار کے لحاظ سے کئی دیوانوں پر بھاری ہے۔ انہیں اگر اپنی معاش کیلئے فلمی مصروفیات میں زندگی گزارنے کی مجبوری نہ ہوتی اور کچھ فراغت میسر آ جاتی تو وہ یقیناً اردو کے شعری ادب میں اس سے کہیں زیادہ اضافہ کر سکتے تھے۔ تاہم انہوں نے جتنا کچھ بھی لکھا وہ ان کے نام کو جدید شعراء کی معتبر فہرست کا حصہ بنانے کیلئے کافی ہے۔

معروف ادیب اور شاعراظہر جاویدنے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ احمد راہی نے جب شاعری کا آغاز کیا تو ان کے سامنے ایم ڈی تاثیر، فیض احمد فیض اور سیف الدین سیف جیسے قد آور شاعر موجود تھے۔ ایسے میں اپنا رنگ جمانا اور نیا آہنگ بنانا، ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔ پھر ترقی پسند تحریک بھی اپنے جوبن پر تھی اور سیاسی طور پر ایک انقلاب بھی برصغیر کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا۔ پرانی قدروں کی ٹوٹ پھوٹ اور نئے سماج کی تشکیل کے خواب دیکھتے دیکھتے بہت سے نوجوان زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں، اور ان کی آواز صرف نعرہ بند کر رہ جاتی ہے۔ کچھ سیاسی بندی خانوں میں پڑے رہتے ہیں، کچھ قانون کی سلاخوں کے پیچھے مرکھپ جاتے ہیں۔ تبدیلی کے اس عمل میں کسی نوجوان سوچنے والے کیلئے خود کو سنبھلنے اور اپنی سوچ کو اجالنے کیلئے بڑے کٹھن مرحلوں سے گزرناپڑتا ہے ایک کشٹ جھیلنا پڑتا ہے۔احمد راہی نے اسی دوسری نسل کا سفر اختیار کیا اور اپنے ہم عصر ساحرلدھیانوی کی طرح انقلابی سوچ اور ترقی پسندانہ فکر میں رومانس کی جوت جگائی۔ یوں ان کے لہجے میں تلخی نہیں گھلی۔ ماحول کے جبر اور انسان کے کرب کو محسوس کرکے جب بھی اظہار کیا، کومل رنگ میں کیا۔ نہ ساغر و مینا کے قصے کہے نہ کسی سیاسی آرگن کا ڈھنڈورا پیٹا، بڑے دھیرج سے نرم اور گداز انداز میں ہجر و وصال کا ذکر بھی کیا اور ارد گرد پھیلے ہوئے حالات کی بھی عکاسی کی۔ 

احمد راہی اپنے ارادے کے جتنے پکے اور عزم کے جتنے کھرے تھے، رہن سہن میں اتنے ہی بے ترتیب تھے۔ آغاز اردو شاعری سے کیا، مگر مرتے دم تک پنجابی شاعری سے تعلق رکھا، خوش پوش اور خوش اطوار ہونے کے ساتھ نہایت انا پرست تھے۔ کوئی من کو بھاگیا تو اسے سر آنکھوں پر بٹھا لیا، دل میں بسایا، کوئی ناپسند ہو گیا تو چاہئے سرخاب کے پرٹانک کر آ جائے، احمد راہی سے پھر محبت نہیں وصول کر سکتا تھا ۔جوانی میں بہت محفل باز اور جملہ طراز بھی تھے، پھر آدم بیزار ہوتے گئے۔ یہ عادت اتنی گھمبیر ہو گئی تھی کہ ایک دن یونہی چپ چاپ دنیا سے بھی کوچ کر گئے۔

احمد راہی کی بے ترتیبی ہی کا نتیجہ ہے کہ ان کا اردو کلام پورے کا پورا میسر نہیں ہو رہا۔جن دنوں وہ ’’سویرا‘‘ کے ایڈیٹر تھے، ان زمانے میں وہ اردو ہی میں کہتے تھے اور شعری محفلوں کو گرفت میں لینے کا ہنر جانتے تھے۔ پھر ایسی تبدیلی آئی کہ پنجابی میں کہا اور خوب کہا۔ جلد ان کی کتاب ’’ترنجن‘‘ چھپ گئی اور ادبی حلقوں( پنجابی اور اردو) میں تہلکہ مچ گیا۔ یہ ان کی کامیابی اور فتح مندی بھی تھی اور شاید یہیں سے اردو شاعری سے ان کا بندھن کمزور پڑ گیا۔ 

کچھ لوگ شاعری میں بڑے کم گو ہوتے ہیں۔ احمد راہی بھی اسی مزاج کے تھے۔ ہم عصروں میں سے کئی ایک کے متعدد مجموعے چھپ گئے مگر انہوں نے ساحر لدھیانوی کی طرح کم سے کم کہا۔ ان دونوں کے مزاج میں ایک اور ہم آہنگی بھی تھی۔ ساحر کو بھی فلم کی کہانی پسند آتی بلکہ یوں کہنا چاہئے، فلم ساز پسند آتا، تو گیت لکھنے کی حامی بھرتے۔ احمد راہی بھی اسی معاملے میں نہایت تنک مزاج تھے۔ کسی فلمساز نے ان کے سامنے میز پر پائوں ٹکا لئے تو احمد راہی کا پارہ چڑھ گیا۔ اس سے ایڈوانس لی ہوئی رقم بھی واپس کر دی۔

احمد راہی کی زندگی کے آخری چار پانچ سال بہت مشکل گزرے۔ وہ بیماری اور بیکاری کا شکار رہے، پاکستان کی فلم انڈسٹری جس کیلئے انہوں نے ہزاروں بے مثال نغمے تحریر کئے اور جو تیس چالیس برس تک ان کی معاش کا واحد ذریعہ رہی خود زبوں حالی کا شکار ہو گئی، فلمسازی کا عمل سست پڑ گیا تو ظاہر ہے اس کا اثر احمد راہی کی نغمہ نگاری پر بھی پڑا۔دلوں کو چھو جانے والی شاعری کے خالق احمد راہی جو13نومبر1923 ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے  2 ستمبر 2002 ء کوجہان فانی سے رخصت ہوئے لیکن ان کی شاعری کا سحر آج بھی برقرار ہے۔

منتخب اشعار

چند لوگوں کی مسرت ہے یہاں پیش نظر

چند لوگوں کی تمنائیں یہاں کھلتی ہیں

…………

اپنا حق مانگنا اِک جرم، بغاوت ہے یہاں

جس کی پاداش میں ہونٹوں کو سیا جاتا ہے

جگمگاتے ہوئے محلوں کے تحفظ کے لئے

بے شمار آنکھوں کو بے نور کیا جاتا ہے

…………

جاں افزا نہیں ہوتا، جان لیوا ہوتا ہے

دل میں جب ٹھہر جائے درد کا کوئی لمحہ

…………

خشک خشک سی پلکیں اور سوکھ جاتی ہیں

میں تری جدائی میں اس طرح بھی روتا ہوں

…………

اس جہان میں ہم نے اسی طرح بسر کی ہے

جیسے اپنی ہستی کا لکھ رہے تھے ہم نوحہ

…………

کہیں یہ اپنی محبت کی انتہا تو نہیں

بہت دنوں سے تری یاد بھی نہیں آ ئی

…………

دُور رہ کر بھی اِک تعلق ہے

اِس کنارے کا اُس کنارے سے 

…………

تیری محفل میں چراغاں ہے مرے اشکوں سے

میرے سینے میں تری یاد کا غم جلتا ہے

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

اُستاد دامن:ہنگامہ خیز شاعر

اُن کا تحت اللفظ میں پڑھنے کا انداز انتہائی پرجوش اور ولولہ انگیز ہوتا تھا 1938ء سے 1946ء تک استاد دامن کی شاعری اور شہرت کا سنہری دور تھا

پنجابی شاعری کی اصناف

ہر زبان کی شاعری متنوع اصناف کی حامل ہوتی ہے۔ یہی حال پنجابی زبان کا ہے جس کا شمار دنیا کی دس بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب انڈیا کا حصہ بنا اور مغربی پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بن گیا۔

پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم:چیمپئنز ٹرافی:معاملہ لٹک گیا

آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی2025ءکا ایونٹ جو 19 فروری سے 9 مارچ تک پاکستان میں شیڈول ہے بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان میزبانی کے اپنے اصولی موقف پر سختی سے ڈٹا ہوا ہے، جس کے بعد بھارت نے مزید وقت مانگ لیا ہے۔ اسی لئے گزشتہ روز ہونے والا آئی سی سی کا اجلاس بھی نہ ہو سکا اور ذرائع کے مطابق اب یہ اجلاس اگلے 48 گھنٹوں میں ہونے کا امکان ہے۔

فیڈرل ویمنز باسکٹ بال ٹورنامنٹ

پاکستان میں باسکٹ بال کا کھیل روز افزوں ترقی کر رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل نہ صرف قومی اور صوبائی سطح پر باسکٹ بال کے متواتر ٹورنامنٹس اور دیگر مقابلے ہو رہے ہیں بلکہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بھی اس کھیل کے ایونٹس کا انعقاد ہو رہا ہے۔

دوستی ہو تو ایسی

کامران اور عمر کی دوستی پوری کالونی میں مشہور تھی۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ سب کامران کو پیار سے کامی کہتے تھے۔ ایک دفعہ عمر، ٹیچر سے پانی پینے کا پوچھ کر گیا لیکن پھر اس کی واپسی نہیں ہوئی۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا، کامی پریشان ہو رہا تھا۔ چھٹی کے وقت کامی، عمر کے گھر گیا اور کہا ’’ آنٹی! عمر، ٹیچر سے پانی کا پوچھ کر گیا تھا لیکن واپس نہیں آیا، کیا وہ گھر آ گیا ہے؟‘‘۔ اس بات سے عمر کے گھر والے پریشان ہو گئے۔

کریلا

کریلا میرا نام بچو! کریلا میرا نام سبزی میں ہے خاص مقامگہرا ہرا ہوں میں خوش رنگ