بچے اور سوشل سائنس
دنیا کے کامیاب ترین لوگ کیا پڑھتے ہیں ؟ یا دنیا پر حکمرانی کرنے والے لوگ کیا پڑھتے ہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اور اس پر کچھ تبصرہ آج کا میرا موضوع ہے۔ دنیا میں کامیاب ترین رہنماؤں کی 55فیصد تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے سائنسی علوم نہیں حاصل کیے، بلکہ ان کی کامیابی کا راز غیر سائنسی علوم تھے۔ یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ برٹش کونسل کی ایک تحقیق اور سروے کی رپورٹ ہے جو اس نے 30سے زائد ممالک کے 1700افراد پر کی۔
تحقیق سے پتا چلا کہ نصف سے زائد 55فیصد رہنماؤں نے سوشل سائنس اور ہیومنیٹیز کا مطالعہ کیا تھا۔ ان میں سے 44 فیصد نے سوشل سائنس اور 11 فیصد نے ہیو منیٹیز میں ڈگری حاصل کی تھی جبکہ جو لوگ سرکاری ملازمتوں پر فائز تھے۔ ان میں سوشل سائنس کے مطالعے کے امکانات زیادہ تھے۔ اسی طرح غیر منافع بخش تنظیموں سے وابستہ افراد ہیو منٹیز کا پس منظر رکھتے تھے۔ پولیٹیکل سائنس اور سوشل سائنس یعنی سماجی علوم یا معاشرتی علوم وہ علوم ہیں جن میں ہم لوگ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ یہی وہ علوم ہیں جن کو پڑھ کر یا مہارت حاصل کرکے کچھ لوگ دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔ ان کو ان علوم کی اہمیت کا خود اندازہ ہے، اسی لئے وہ اپنے بچوں کو بھی یہی علوم پڑھاتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات حیرت سے کم نہ ہوگی کہ یورپ وغیرہ میں ڈاکٹری، انجینئرنگ وغیرہ سیکھنے یا پڑھنے کا اتنا زیادہ رجحان نہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک کے ڈاکٹرز اور انجینئرز دھڑا دھڑ یورپ جا رہے ہیں۔ یورپ والوں کی نظر میں میڈیکل سائنس، الیکٹریکل سائنس، کمپیوٹر سائنس وغیرہ عام سے کام ہیں اسی لئے ان کاموں کیلئے وہ دوسرے محکوم ممالک سے لوگوں کو بلاکر ملازم رکھ لیتے ہیں۔
میرا ایک جاننے والا سپین میں رہتا ہے ایک دن فون پر بات ہورہی تھی اس نے کہا میرے دانت میں درد ہے آج ڈاکٹر کے پاس گیا تھا، اس نے ٹوکن دے دیا ہے، اب پندرہ دن بعد میری باری آئے گی، پھر وہ چیک کرے گا اور دوا دے گا۔ اس نے بتایا یہاں ڈاکٹر بہت کم ہیں اس لئے چیک اپ کروانے کیلئے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے۔
موجودہ دور میں جس طرح ہر چیز نے ترقی کی ہے اسی طرح بکریاں چراکر جو تربیت ہوتی تھی وہ بھی اب باقاعدہ ایک علم بن گیا، جو بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اسی علم کو آج سوشل سائنس، پولیٹیکل سائنس، عمرانیات وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے۔ سمجھدار لوگ ان علوم میں مہارت حاصل کرکے لوگوں کے دل و دماغ سے کام لیتے ہیں۔ سوشل سائنس اور سماجی علوم کی کئی شاخیں ہیں، بڑی بڑی کمپنیاں ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کرکے اپنے کاروبار چلاتی ہیں۔ وہ ماہرین نفسیات کے مطابق پروڈکٹ میں تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ایڈورٹائزنگ کا شعبہ بھی ایسے ہی لوگ چلاتے ہیں۔ مغربی افکار پر تنقید کے ساتھ ان کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ مبنی برحقیقت تصور انسان و کائنات کے مطابق، معلومات کو ترتیب دیں اور نئی معلومات کی دریافت و تحقیق کا کام اس جذبے کے ساتھ انجام دیں کہ ایک صالح معاشرے کی تعمیر کرنی ہے۔
٭٭٭