کراچی، بلدیاتی انتخابات اور خدشات
سندھ میں بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا محاسبہ کرنے کے لیے گیند ایک بار پھر عوام کے کورٹ میں ہے۔ کراچی کے 6 اضلاع میں آج ضمنی بلدیاتی الیکشن ہورہے ہیں۔ چیئرمین، وائس چیئرمین اور جنرل وارڈ کی 10سیٹوں پر 68امیدوار مدمقابل ہیں، مگر امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کا الزام عائد کردیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیشہ کی طرح پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن کا گٹھ جوڑ ہے اور ماضی کی طرح ایک بار پھر دھاندلی اور ووٹوں پر ڈاکا ڈالنے کا منصوبہ تیار کیا جاچکا ہے۔ بلدیاتی الیکشن میں نشستوں اور مینڈیٹ کے حوالے سے الیکشن ٹریبونل میں 14کیسز ابھی تک التوا کا شکار ہیں۔ ان کیسز کو 20ماہ ہوچکے ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں کیا جارہا۔ ضلعی الیکشن کمشنرز اور عملہ حکمرانوں سے وفاداریاں نبھانے کو تیار بیٹھا ہے۔ منعم ظفر نے لیاقت آباد ٹاؤن کی یوسی 7کے شماریاتی کوڈ 6میں دوہزار سے زائد ایسے ووٹروں کی شمولت کا بھی الزام لگایا جن کا مستقل یا عارضی پتا کہیں اور کا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشنر سمیت تمام متعلقہ اداروں کو تحریری طور پر آگاہ کردیا گیا ہے۔تحریک انصاف کو بھی ضمنی الیکشن میں شفافیت پر شبہ ہے۔ پی ٹی آئی کراچی کے صدر راجا اظہر نے الیکشن کمشنر سندھ کو خط لکھا اور ضمنی بلدیاتی الیکشن رینجرز کی نگرانی میں کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی نگرانی میں شفافیت ممکن نہیں، ماضی کے نتائج سامنے ہیں۔بقول ان کے سندھ حکومت ہر بار انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتی رہی ہے۔الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت مستقل یا عارضی میں سے کوئی ایک پتا اسی علاقے کا ہونا لازمی ہے، اگر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے الزامات درست ہیں تو الیکشن کمیشن کو صورتحال کی وضاحت کرنی چاہیے۔ اگر انتخابی فہرستوں یا الیکشن کے عمل کی تیاری کے دوران کہیں غلطی ہوئی ہے اور اس کی بروقت نشاندہی کردی گئی ہے تو اسے بھی درست کیا جانا چاہیے۔ بصورت دیگر الیکشن کی شفافیت پر سوال پہلے بھی اٹھتے رہے ہیں اور آئندہ بھی اُٹھتے رہیں گے۔
ادھرتحریک انصاف کراچی میں مزارِ قائد کے سامنے واقع باغ ِجناح میں جلسہ کرنا چاہتی ہے جبکہ انتظامیہ انکاری ہے۔ پی ٹی آئی نے سندھ ہائیکورٹ میں کیس دائر کر دیا ہے جس کی پیر کو سماعت ہوئی، عدالت میں جمع کرائی گئی ڈپٹی کمشنر شرقی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ ہے ان حالات میں جلسے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے بھی جلسے کی اجازت نہ دینے کی سفارش کی ہے۔ پی ٹی آئی رہنما بھی عدالت میں موجود تھے، کارروائی آج پھر ہوگی۔ دہشت گرد ملک بھر میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں اور کسی سیاسی جلسے کو نشانہ بنانا تو بہت آسان ہوتا ہے۔ گزشتہ ماہ کراچی میں ایئرپورٹ کے قریب خودکش حملہ ہوا تھا جس میں چینی باشندوں کو نشانہ بنایا گیا۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ حملے کے ماسٹر مائنڈ سمیت کئی افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ وزیرداخلہ سندھ ضیاالحسن لنجار نے نیوز کانفرنس کی اور کارروائی کی تفصیلات سے میڈیا اور عوام کو آگاہ کیا۔ خودکش حملہ آور سمیت دیگر کی شناخت بھی ظاہر کی گئی،بتایا گیا کہ حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی کراچی سے خریدی گئی تھی اور حب سے کہیں آگے لے جاکر اس میں بارودی مواد نصب کیا گیا۔ ایک خاتون کو بھی حراست میں لیا گیا ہے، یہ وہی خاتون ہے جس کا شیلٹر استعمال کیا گیا تاکہ گاڑی کی چیکنگ نہ ہوسکے۔ بلوچستان کی صورتحال میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ ایسی صورتحال میں جلسہ، جلوس انتظامیہ کے لیے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔
لگے ہاتھوں ایک اچھی خبر بھی سن لیں کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سٹیل ملز کی بحالی کی کوششوں میں جت گئے ہیں۔ انہوں نے روس سے مدد مانگ لی ہے۔ جلد ہی پاکستانی اور روسی ماہرین کے درمیان مشاورت ہو گی اور روسی وفد سٹیل ملز کا دورہ کرے گا۔وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی یہ کوشش قابل ہے، لیکن انہیں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ سٹیل ملز کی تباہی میں سیاستدانوں کا بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے اس ادارے میں بھرتیاں کیں اور انتظامی امور کو سیاسی انداز میں چلانے کی کوشش کی گئی۔ اگر وزیراعلیٰ واقعی سنجیدہ ہیں تو ادارے کو کاروباری انداز میں چلانے کی منصوبہ بندی کریں جہاں میرٹ پر عمل ہو، میرٹ کا قتل عام نہ ہو۔ صرف وہی شخص ادارے کا حصہ رہے جو کام کا ہو، بے کار اور اضافی لوگوں کو گھر بھیجنے میں نہ کوئی تامل کیا جائے اور نہ کسی کی سفارش کو قبول کیا جائے۔ وزیراعلیٰ صرف ورکرز کی نوکریاں بچانے کی بات نہ کریں۔ سٹیل ملز کی تباہی میں ورکرز کا بھی برابر کا ہاتھ ہے، جنہوں نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اور اب نوکریاں جانے کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ حال یہ ہے کہ یہاں سیلاب متاثرین کی امداد تک کھا جانے میں عار محسوس نہیں کی جاتی۔ سندھ میں سیلاب متاثرہ سکولوں کی بحالی کے لیے ٹھیکوں میں بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں اور بات عدالت تک جاپہنچی ہے جس نے سندھ حکومت کو ٹھیکے دینے کا عمل روک دینے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت کو دی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ بولی کا طریقہ کار اس طرح کا بنایا گیا ہے کہ صرف منظورِ نظر ٹھیکیدار کو ہی ٹھیکہ مل سکتا ہے۔ جہاں اس طرح کا نظام ہو وہاں کوئی ادارہ پنپ کیسے سکتا ہے؟ وزیراعلیٰ سٹیل ملز چلانے کی کوشش ضرور کریں ساتھ ہی اداروں میں مبینہ کرپشن کا بھی سدباب کریں۔