پی ٹی آئی احتجاج پر مصر،نتیجہ کیا ہو گا ؟

تحریر : سلمان غنی


پی ٹی آئی کی جانب سے صوابی جلسہ کے بعد ایک نئے احتجاجی مارچ کا اعلان 24نومبر کیلئے کیا گیا ہے۔ مجوزہ مارچ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس کی نتیجہ خیزی تک لوگ گھروں کو واپس نہیں آئیں گے۔

 پارٹی ذمہ داران اور تنظیموں کو متحرک اور فعال ہونے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ اراکین اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز سے بھی کہا گیا ہے کہ مارچ کی نتیجہ خیزی میں ان کا کردار اہم ہوگا ۔ بلاشبہ احتجاج جمہوری عمل کا حصہ ہے اور جمہوری عمل میں سیاسی جماعتیں اپنے احتجاج کو ایسے ایشوز سے منسلک کرتی ہیں جن کے باعث انہیں عوامی سطح پر پذیرائی ملے اور عوام احتجاج میں شامل ہوں اور کم از کم وہ یہ سمجھتے ہوں کہ مذکورہ جماعت ان کے ایشوز اور مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے احتجاج کر رہی ہے، لیکن پی ٹی آئی اپوزیشن میں آنے کے بعد مسلسل احتجاج کے موڈ میں ہے۔ عدم اعتماد کے بعد پی ٹی آئی نے اس بنا پر احتجاج شروع کیا کہ اس کی حکومت کے خلاف سازش ہوئی ۔ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاجی عمل کے ساتھ پہلے قومی اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کیا گیااور پھر اپنی صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں توڑ دیں۔اس احتجاجی بخار کی انتہا9مئی کے واقعات تھے۔بلا شبہ یہ گھیرائو جلائو کا ایسا عمل تھا جس کی دشمن سے بھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد سے اب تک پی ٹی آئی احتجاج کے موڈ میں ہے۔ جیل میں بیٹھی اس جماعت کی قیادت سے ملاقات کرنے والا کوئی ایسا شخص نہیں جس نے باہر آکر یہ نہ کہا ہو کہ پارٹی لیڈر احتجاج پر مصر نہیں ،مگر وہ شاید سیاسی حالات اور زمینی حقائق سے واقف نہیں۔انہیں معلوم نہیں کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ اب بھی وہ یہی سمجھتے ہیں کہ احتجاجی مارچ حکومت کے خاتمہ کا باعث بنے گا حالانکہ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ماضی میں ان کا احتجاج اس لیے کارگر ہو گیاتھا کہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی تھپکی ہوتی تھی، اب حالات ایسے نہیں اس لیے احتجاج نتیجہ خیز ہونے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ البتہ یہ احساس اس جماعت میں ضرور ہے کہ مسلسل احتجاجی کیفیت نے سیاسی و تنظیمی صلاحیت  کو نقصان پہنچایا ہے اور کارکن تھکے تھکے نظر آ رہے ہیں۔ 

پختونخوا کی سطح تک تو حکومتی وسائل اور خوف وہراس سے طاری فضا کا فائدہ ضرور اٹھایا جا رہا ہے مگر پنجاب کے محاذ پر تنظیمی و سیاسی ذمہ داران کو سانپ سونگھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ بلند و بانگ دعوے ہیں تو پائوں زمین پر لگتے نظر نہیں آ رہے مگر اصل قیادت منظر سے غائب ہے ۔ فی الحال جماعت کے جیلوں میں بند اکابرین اور ذمہ داران میں مایوسی پائی جا تی ہے۔ جہاں تک ان کے احتجاج کی نتیجہ خیزی کا سوال ہے تو اب تک احتجاج کے نتیجہ خیز نہ ہونے کی بڑی وجہ ان کے لیڈر کی جیل یاترا ہے اور اس کے بعد سے جماعت کے اندر انتظار کی کیفیت ہے اور قیادت کے فقدان نے اس جماعت کی تنظیمی ،سیاسی اور احتجاجی کیفیت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے ۔ جب احتجاج کا مقصد ملک میں جاری سسٹم پر اثرانداز ہونا ہو تو لا محالہ ریاست حکومت کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے ۔اگرچہ حکومت کو زیادہ مضبوط قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن خود پی ٹی آئی کی حکمت عملی نے حکومت اور ریاست کو ایک سطح پر لاکھڑا کیا ہے کیونکہ ریاست کسی کو آئین ،قانون اور ریاست کے بالاتر ہونے کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ مقتدرہ نے ریاست کے مفادات کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ جہاں تک احتجاج کی کامیابی کا سوال ہے تو فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ مارچ کی کال کی تکرار کا مقصد اپنے اندرونی مسائل اور انتشار کا سدباب ہے اور اگر اس کا علاج ممکن ہو سکا تو پھر  احتجاج کارگر ہو سکتا ہے۔ البتہ یہ طے ہے کہ اسلام آباد نہیں پہنچ سکیں گے اور اگر اسلام آباد کی مشروط اجازت مل بھی گئی تو یہ حکومت کیلئے چیلنج ضرور بنے گی۔ فی الحال کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں احتجاجی تحریک کیلئے نہ تو حالات ساز گار ہیں اور نہ ہی پی ٹی آئی اس حوالے سے تیاری میں ہے۔ جہاں تک حکومتی حکمت عملی کا سوال ہے تو حکومت کے اطمینان کیلئے یہی کافی ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی بمقابلہ حکومت سے زیادہ پی ٹی آئی بمقابلہ مقتدرہ کا تاثر ہے، اور یہی تاثر کسی احتجاج اور مارچ کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت بھی سیاسی بنیادوں پر پی ٹی آئی سے مقابلہ کی بجائے انتظامی مشینری پر انحصار کئے ہوئے ہے۔ پنجاب کی سطح پر انتظامی مشینری احتجاج پر غالب آئی ہے۔ کیا یہ سلسلہ مستقبل میں بھی قائم رہ سکے گا؟ فی الحال تو یہ کہنا قبل از وقت ہوگا البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ احتجاج اور احتجاجی مارچ کے مستقبل کا انحصار اور اس کی نتیجہ خیزی فی الحال دکھائی نہیں دے رہی۔ کیا یہ حالات ہمیشہ قائم رہیں گے؟ اس حوالے سے کچھ کہنا بھی ممکن نہیں کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ حالات کے ساتھ معاملات اور ترجیحات بدل جاتی ہیں اور حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اس کی مثال خود (ن) لیگ ہے جو ایک وقت میں ہر سطح پر ٹارگٹ اور مقدمات میں مطلوب تھی اور آج ہر سطح پر محبوب نظر آ رہی ہے۔

ادھرپنجاب اور خصوصاً لاہور سموگ کی زد میں ہے۔ حکومت کی جانب سے اس کے سدباب کیلئے ممکنہ اقدامات اور اعلانات نظر آ رہے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ بروقت کئے جانے والے اقدامات ہی نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔ لاہور کو گزشتہ کئی سالوں سے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست قرار دیا جاتا رہا ہے مگر نہ جانے کیوں اس حوالے سے بروقت اقدامات نہیں ہوتے رہے اور محکمہ ماحولیات محض دعووں پر انحصار کرتا رہا ہے، لیکن اب یہ سلسلہ پنجاب کے دیگر شہروں کے علاوہ اسلام آباد تک پھیل چکا ہے۔ بڑا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ جب سموگ کے خطرات اور خدشات بارے معلوم ہے تو پھر اس حوالے سے اقدامات بروقت کیوں نہیں ہوئے ؟ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات میں ایک کی بڑی وجہ آلودگی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال سوا لاکھ سے زائد افراد آلودگی سے متعلقہ بیماریوں کے باعث جان کھو دیتے ہیں۔ سموگ محض یہاں کا مسئلہ نہیں لندن اور بیجنگ بھی ماضی میں سموگ کی لپیٹ میں رہے ،مگر ان ممالک کی حکومتوں نے اسے سنجیدہ لیا تو ان کی ائیر کوالٹی میں غیر معمولی بہتری آئی ہے۔ لہٰذا سموگ جیسے روگ سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہماری حکومتوں کو بھی سنجیدگی دکھانی چاہئے اور صحت عامہ کیلئے ایسے اقدامات بروئے کار لانے چاہئیں جو نتیجہ خیز ہوں۔متعلقہ حکام اور ذمہ داران کو اس حوالے سے جوابدہ بنائے بغیر صورتحال میں بڑی بہتری ممکن نہ ہوگی۔ پنجاب حکومت کیلئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے ،اس کے لیے توجہ اور سنجیدگی درکار ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭