پبلک آرڈرآرڈیننس کا مخالف کون؟
رواں ہفتے کے دوران آزاد جموں و کشمیر حکومت کی جانب سے پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024 کے نفاذ کے خلاف راولاکوٹ میں قوم پرستوں نے احتجاج کیا۔ یہ آزاد جموں و کشمیر میں صدارتی آرڈیننس کے خلاف پہلا مظاہرہ تھا۔ پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی ، اس دوران مظاہرین نے پولیس کی جانب سے کھڑی کی گی رکاوٹوں کو عبور کرنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس استعمال کی۔
دوسری جانب مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی نے ایک مرتبہ پھر 5 دسمبر سے پورے آزاد جموں و کشمیر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کااعلان کر دیا گیا ہے۔عوامی ایکشن کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں مشترکہ فیصلے کے بعد جاری کئے گئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے خاتمہ، آزادکشمیر میں انٹرنیشنل ائیرپورٹ ، مفت تعلیم اور صحت کے مطالبات چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل ہیں۔ ان مطالبات کی عدم منظوری تک جدو جہد جاری رہے گی۔واضح رہے کہ آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے پبلک آرڈر آرڈیننس کو درست اور قانون کی بالا دستی کیلئے ضروری قرار دیتے ہوئے اس آرڈیننس کے خلاف درخواستوں کو ابتدائی سماعت کے بعد خارج کر دیا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر بار کونسل نے ہائی کورٹ میں اس آرڈیننس کے خلاف درخواست میں لکھا تھا کہ اس کے نفاذ سے آزاد جموں وکشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974 میں دی گی اظہار رائے کی آزادی اور اجتماع کے حق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔اس پرآزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس صداقت حسین راجہ اور سینئر جج جسٹس سردار لیاقت حسین پر مشتمل دو رکنی بنچ نے درخواستوں کی سماعت کی اور عدالت نے قرار دیا کہ بعض مواقع پر وسیع تر قومی مفاد کیلئے اس طرح کے آرڈیننس جاری کرنے پڑتے ہیں۔ عدالت نے سوال کیا کہ کہاں اور کس مقام پر اس آرڈیننس کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگی اور کس شہری کے بنیادی اور سیاسی حقوق کہاں متاثر ہوئے؟ عدالت نے کہا کہ جس کا دل کرتا ہے جاکر سڑکیں بند کر کے مظاہرے شروع کردیتا ہے ،جس کی کوئی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا ہے۔ عدالت نے آرڈیننس کی شق پانچ کا حوالہ دینے ہوئے کہا کہ بعض غیر معمولی حالات میں، جہاں عوام یا امن و امان کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو وہاں ڈیوٹی یا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ عوامی اجتماعات پر پابندی لگا سکتا ہے، اس میں کوئی برُی بات نہیں۔ عدالت نے کہا کہ یہ آرڈیننس اس لئے لایا گیا کہ انتظامیہ اپنے اختیارات کو استعمال کر کے معاشرہ میں امن اور بھائی چارہ کے ساتھ ساتھ کاروبار کے پہیہ کو روکنے والے عناصر کو روک سکے۔ عدالت نے کہا کہ زندہ معاشروں میں فیصلے ہمیشہ اجتماعیت کو دیکھ کر کئے جاتے ہیں اور آرڈیننس میں وضاحت کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں موجود ہ قوانین کو لاگو اور مؤثر بنانے کیلئے اسی طریقے اور ضابطے کو اختیار کیا جائے گا جو آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974 میں لکھا گیا ہے تاہم اجتماعی مفاد کو انفرادی مفادات پر ترجیح دی جائے گی۔ عدالت نے بحث کے بعددرخواستوں کو مسترد کر دیا۔ تاہم سیاسی حلقوں میں حکومت کے سینئر ارکان کابینہ اور فارورڈ بلاک کے بیشتر وزرا کی طرف سے تا حال اس آرڈیننس پر خاموشی اختیار کرنے کے حوالے سے مختلف تبصرے اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ شاید اگلے چند روز میں فارورڈ بلاک ، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے وزرا کی طرف سے بھی اس آرڈیننس کے حق میں بیانات سامنے آجائیں۔
آزاد جموں و کشمیر میں پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس کو 29 اکتوبر سے نافذ کر دیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ عوامی اجتماعات اور احتجاجی مظاہروں کیلئے پیشگی اجازت کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی طرف سے مخصوص مقامات پر ہی احتجاجی دھرنا دیا جا سکتا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں آئے روز احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں سے کاروبار متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ علاقے میں سیاحتی صنعت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔2016ء کے ایک عدالتی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ احتجاجی مظاہرین پر یہ لازم ہے کہ وہ مظاہروں اور دھرنوں کے دوران عام شہریوں کی معمولات زندگی کو متاثر نہیں کریں گے۔ ادھر حکومت کی اہم اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی سینئر قیادت نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم نے بڑے محکموں کی وزارتیں اپنے ممبران قانون ساز اسمبلی کو دی ہیں۔ مظفرآباد میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے صدر چوہدری محمد یاسین نے کہا کہ وہ شروع دن سے اپوزیشن میں رہنے کے حق میں تھے لیکن پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کے فیصلے کی وجہ سے وہ اس حکومت میں شامل ہو ئے۔ انہوں نے وزرا سے کہا کہ وہ کارکنوں کے تحفظات دور کریں اور ہماری کوشش ہو گی کہ ہم مرکزی قیادت کو اعتماد میں لیکر بہت جلد حکومت سے الگ ہوجائیں گے۔ صدر پیپلزپارٹی چوہدری محمد یاسین نے کہا کہ وہ کارکنان کے تحفظات سے مرکزی قیادت کو بھی آگاہ کریں گے۔اس پروزیر اعظم آزاد جموں وکشمیر چوہدری انوار الحق کا کہنا تھا کہ حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کو کابینہ میں بھر پور نمائندگی ملی ہے ، اس کے باوجود اگر اتحادی جماعتوں کے قائدین کو شکایات ہیں تو حکومت ان کے ازالے کیلئے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ میں بلا تفریق تعمیراتی کام ہوئے اور اب الیکشن میں ڈیڑھ سال رہ گیا ہے اس دوران بھی اتحادی جماعتوں کا بھر پور خیال رکھا جائے گا۔ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے کہا کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی اگلے انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے عوام میں جا رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت اپنی بقیہ مدت بھی پوری کر ے گی۔