اکبر معصوم، ذاتی اذیتوں سے بڑی شاعری تک

تحریر : پروفیسرصابر علی


انہوں نے غزل میں اپنی ذات کا تڑکا لگا کر اسے اور بھی مصفاکر دیا دمکتی ہے باہر سے دنیا بہت مگر اس نگینے کے اندر ہوں میں اکبر کی شاعری حقیقی تجربات، احساسات اور کیفیات کی آئینہ دار ہے اور اس سے جو سوالات پیدا ہوتے ہیں وہ اس کے وجود کا تقاضا ہیں۔

1961ء میں سانگھڑ میں پیدا ہونے والا اکبر علی ایک انتہائی پیچیدہ عضلاتی بیماری میں مبتلا تھا۔ جس کا پتا 1989ء میں لاہور جا کر چلا۔ پہلے بھی چل جاتا تو وہ کیا کرتا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ تدریجاً معذور کر دینے والی یہ بیماری لا علاج ہے۔ 1994ء میں ایک دوسرے مرض، ٹی بی نے جکڑ لیا جس کے نتیجے میں وہ قطعی مفلوج ہو گیا اور اس کی سننے، بولنے، دیکھنے اور چکھنے کے علاوہ دیگر صلاحیتیں معطل ہو گئیں۔ اسے فوری طور پر آپریشن کی صعوبت سے گزرنا پڑا۔ اسے شدید تکلیف سے تو نجات مل گئی مگر وہ پوری طرح اس بحران سے نکل نہیں سکا۔ رفتہ رفتہ وہ اس قابل ہو گیا کہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر جیسے تیسے زندگی کی دوڑ میں شامل رہ سکے۔ عضلاتی بیماری کا معاملہ دوسرا تھا۔وہ سکول کالج کے زمانے سے تھی۔ چلتے ہوئے بار بار گرنا، کبھی خود کو گرنے سے بچانا، لڑکھڑانا، چوٹ کھانا تو کہیں اس عیب کو ہنر مندی سے چھپانا۔

 شفیق سہروردی اکبر کے شعری مجموعہ ’’بے ساختہ ‘‘ میں شامل اپنے مضمون میں بتاتے ہیں کہ مفلوج ہونے کے باوجود شاعری سے بے پناہ لگائو۔دراصل یہ ان تمام اذیتوں کا رد عمل تھا جو اکبر علی کوزندگی میں ملیں جو بطور شاعر اکبر معصوم کہلایا ۔اس کی شاعری یقینی طور پرباطن سے پھوٹی اور سب کو متاثر کرتی گئی۔’’اور کہاں تک جانا ہے‘‘ اکبر معصوم کا پہلا شعری مجموعہ تھا جو1999ء میں شائع ہوا۔اس کا دیباچہ معروف شاعر ظفر اقبال نے لکھا،وہ کہتے ہیں۔

’’شاعری، وہ غزل ہو یا نظم، ایک دریافت کا عمل ہے جبکہ غزل کا معاملہ یہ ہے کہ یہ نامعلوم سے اگر معلوم کہ طرف سفر کرتی ہے تو معلوم سے نامعلوم کی حد تک بھی جاتی ہے۔تاہم یہ غزل کی اپنی کرشمہ کاری ہے کہ اپنی ذات کی دریافت کے عمل میں ایک دنیا دریافت ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اکبر معصوم کی شاعری اب تک کہی گئی غزل کا ایک ایسا نچوڑ ہے جسے اس نے اپنی ذات کا تڑکا لگا کراور بھی مصفاکر دیا ہے‘‘۔

وہ مزید لکھتے ہیں۔

’’بلاشبہ اکبر معصوم کی آواز ایک مستقیم اور مستحکم آواز ہے۔ ایک آواز تو وہ ہوتی ہے جو اپنی انفرادیت کے زور پر دوسری سب آوازوں کو چپ کرا کر اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے جبکہ اکبر معصوم جیسی آواز اپنا جادو آہستہ آہستہ جگاتی ہے۔ مگریہ ایک عجیب بات ہے کہ اس میں مبتدی شاعروں والی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ پختگی، بلوغت ہے کہ جہاں تہاں رچی بسی نظر آتی ہے، تازہ کاری ہے کہ قدم قدم پر آپ کو پکڑ کر بٹھا لیتی ہے۔ ان اشعار میں آپ کو ایک ایسے گداز سے واسطہ پڑے گا جو اُس گداز سے یقیناً مختلف اور تنومند ہے جس کے خلاف کبھی ہم نے بغاوت کی تھی۔ جذبے کو اس نے تخلیقی سطح پر تہذیب کیا ہے جو کہ جدید غزل کی ایک اہم ضرورت اور تقاضا بھی ہے‘‘۔

7 اپریل2019ء کو58 سال کی عمر میں انتقال کرنے والے اکبر معصوم بلا شبہ جدید اردو غزل کے اہم ترین اورمنفرد شاعر ہیں۔ بعض شعراء ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس حوالے کے طور پر محض چند اشعار یا غزلیں ہوتی ہیں جو وہ ہر مشاعرے میں سنا کر داد سمیٹتے ہیں اور یہی کلام ان کو زندہ رکھتا ہے مگر اکبر معصوم پر اس معاملے میں ربِ سخن کی بہت عنایت رہی۔ ان کی ہر غزل کا ہر ہر شعر اپنے اندر معانی و مفاہیم کا سمندر لیے ہوئے ہے۔  

ہم آپ جانتے ہیں کہ بچپن لڑکپن، جوانی، بڑھاپے، ہر دور کی، اپنی اپنی سماجی، معاشی، نفسیاتی اور جسمانی ضروریات اور کردار ہوتا ہے۔ رویے، عادات و اطوار، لباس، دلچسپیاں، جذبات و احساسات، مسرتیں اور حسرتیں وغیرہ وغیرہ۔ بچپن میں پریوں کی کہانیاں اچھی لگتی ہیں تو جوانی میں پریاں، اس عمر میں آنکھ مچولی، ہنسی مذاق، لڑائی، مار کٹائی، کھیل، ورزش سب چلتے ہیں۔ ادراک ہو کہ نہ ہو، بچہ ہو یا بڑا، کسی نہ کسی شکل میں اپنا آپ منوانے کے جتن کرتا ہے، تاج محل ایسے تو نہیں بنتے۔ تو جیسے سبھی کرتے ہیں اس نے بھی ویسے ہی کام کئے اور شاعری، خطاطی، مصوری اور ڈرائنگ بھی۔

دمکتی ہے باہر سے دنیا بہت

مگر اس نگینے کے اندر ہوں میں

شاعری کیا ہے؟ ایک بیان ہی تو ہے تجربات اور احساسات کا۔ اکبر معصوم کی شاعری میںبدگمانی، مایوسی، حسرت، خوف، بغاوت، بے یقینی اور تشکیک جیسے منفی رویوں کا پیدا ہو جانا حیران کن بات نہ ہوتی لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اس میں منفی رویے نہیں۔ نہ اس کی زندگی میں، نہ شاعری میں۔ یہی اکبر کا فن ہے اور یہی تہذیب۔

اکبر کادُکھ بڑا ہے یا شاعری؟

اکبر کی شاعری حقیقی تجربات، احساسات اور کیفیات کی آئینہ دار ہے اور اس سے جو سوالات پیدا ہوتے ہیں وہ اس کے وجود کا تقاضا ہیں۔ مصنوعی نہیں۔ اس نے جو دیکھا، سمجھا، کھویا اور پایا اسے بیان کر ڈالا، اتنی آسانی اور بے ساختگی سے، اگر انسان اپنے دل کی بات کہہ سکے تو اس سے بڑھ کر کیا بات ہے۔

اس کے بعض شعر تو جیسے ایک پراسرار دنیا یا کسی ایسے اجنبی سیارے پر لے جاتے ہیں جو ابھی تکمیل کے مرحلے میں ہے۔ جہاں ایک پراسرار خاموشی ہے۔ حیرت اور ہیبت ہے جہاں بگڑنے اور سنورنے کا عمل کچھ اس انداز سے واقع ہوتا ہے کہ دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ کبھی مسرت سے کبھی حیرت و ہیبت سے، جہاں سناٹا، تجسس ، تنہائی، خوف اور مسرت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

 

 اکبر معصوم نے سندھی زبان کے نامور ادیب آغا سلیم کے ناول ’’ ہمہ اوست‘‘ کا اردو ترجمہ کیا ہے، اور سرائیکی، اردو اور پنجابی کے معروف شعراء انور سعید انور اور ڈاکٹر ایاز سہروردی نے اکبر کی چند غزلوں کو سرائیکی میں ڈھالا ہے ۔پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر نے ’’ نیندر پچھلے پہر دی‘‘ کے نام سے پنجابی شاعری کا مجموعہ شائع کیا ۔

منتخب اشعار

اس خرابے میں کوئی اور بھی ہے

آہ کس نے یہاں بھری تھی ابھی

…………………

دل فقط ہجر سے آباد نہیں رکھ سکتا

جانِ جاں اب میں تجھے یاد نہیں رکھ سکتا

تو جو چاہے تو مجھے چھوڑ کے جا سکتا ہے

اِس سے بڑھ کر میں تجھے شاد نہیں رکھ سکتا

…………………

اچانک یاد آ جاتا ہے سب کچھ

نکل آتی ہے پھر پتھر سے کونپل

…………………

آپ ہی بن رہی ہے اک صورت

خود بہ خود چل رہی ہے ایک لکیر

…………………

درد نے دل کو ڈھونڈ لیا

پہنچا سانپ خزانے تک

…………………

دن بھر جنگل کی آوازیں آتی ہیں

رات کو گھر میں جنگل سارا آتا ہے

…………………

ہاتھ آتا ہی نہیں اس کا خیال

رنگ پکڑوں تو مہک جاتی ہے

…………………

گھر کے لوگوں کو جگاتا کیوں نہیں

مر چکا ہے تو بتاتا کیوں نہیں

…………………

خواب آرام نہیں خواب پریشانی ہے

میرے بستر میں اذیت کی فراوانی ہے

…………………

مجھ کو تو وہ بھی ہے معلوم جو معلوم نہیں

یہ سمجھ بوجھ نہیں ہے مری نادانی ہے

…………………

کچھ اسے سوچنے دیتا ہی نہیں اپنے سوا

میرا محبوب تو میرے لیے زندانی ہے

…………………

بس خواب بیچتا ہوں بناتا نہیں ہوں میں

لیکن یہ بات سب کو بتاتا نہیں ہوں میں

…………………

دْنیا سے مجھ کو اِتنی محبت ضرور ہے

بارش میں بھیگتا ہوں، نہاتا نہیں ہوں میں

…………………

اب تیرا کھیل، کھیل رہا ہوں میں اپنے ساتھ

خود کو پکارتا ہوں اور آتا نہیں ہوں میں

…………………

ایسا ایک مقام ہو جس میں دل جیسی ویرانی ہو 

یادوں جیسی تیز ہوا ہو درد سے گہرا پانی ہو 

…………………

وہ اور ہوں گے جو کار ہوس پہ زندہ ہیں 

میں اس کی دھوپ سے سایہ بدل کے آیا ہوں 

…………………

اجالا ہے جو یہ کون و مکاں میں 

ہماری خاک سے لایا گیا ہے 

…………………

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

اُستاد دامن:ہنگامہ خیز شاعر

اُن کا تحت اللفظ میں پڑھنے کا انداز انتہائی پرجوش اور ولولہ انگیز ہوتا تھا 1938ء سے 1946ء تک استاد دامن کی شاعری اور شہرت کا سنہری دور تھا

پنجابی شاعری کی اصناف

ہر زبان کی شاعری متنوع اصناف کی حامل ہوتی ہے۔ یہی حال پنجابی زبان کا ہے جس کا شمار دنیا کی دس بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب انڈیا کا حصہ بنا اور مغربی پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بن گیا۔

پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم:چیمپئنز ٹرافی:معاملہ لٹک گیا

آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی2025ءکا ایونٹ جو 19 فروری سے 9 مارچ تک پاکستان میں شیڈول ہے بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان میزبانی کے اپنے اصولی موقف پر سختی سے ڈٹا ہوا ہے، جس کے بعد بھارت نے مزید وقت مانگ لیا ہے۔ اسی لئے گزشتہ روز ہونے والا آئی سی سی کا اجلاس بھی نہ ہو سکا اور ذرائع کے مطابق اب یہ اجلاس اگلے 48 گھنٹوں میں ہونے کا امکان ہے۔

فیڈرل ویمنز باسکٹ بال ٹورنامنٹ

پاکستان میں باسکٹ بال کا کھیل روز افزوں ترقی کر رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل نہ صرف قومی اور صوبائی سطح پر باسکٹ بال کے متواتر ٹورنامنٹس اور دیگر مقابلے ہو رہے ہیں بلکہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بھی اس کھیل کے ایونٹس کا انعقاد ہو رہا ہے۔

دوستی ہو تو ایسی

کامران اور عمر کی دوستی پوری کالونی میں مشہور تھی۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ سب کامران کو پیار سے کامی کہتے تھے۔ ایک دفعہ عمر، ٹیچر سے پانی پینے کا پوچھ کر گیا لیکن پھر اس کی واپسی نہیں ہوئی۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا، کامی پریشان ہو رہا تھا۔ چھٹی کے وقت کامی، عمر کے گھر گیا اور کہا ’’ آنٹی! عمر، ٹیچر سے پانی کا پوچھ کر گیا تھا لیکن واپس نہیں آیا، کیا وہ گھر آ گیا ہے؟‘‘۔ اس بات سے عمر کے گھر والے پریشان ہو گئے۔

کریلا

کریلا میرا نام بچو! کریلا میرا نام سبزی میں ہے خاص مقامگہرا ہرا ہوں میں خوش رنگ