بال کیوں گرتے ہیں؟

تحریر : ڈاکٹربلقیس


یوں تو بال ہر انسان کے لیے اس کے جسم کا انتہائی اہم حصہ ہیں،مگر خواتین کی نسوانیت صرف بالوں سے ہی قائم ہوتی ہے۔خواتین کے لیے بالوں میں کمی اتنی حیران کن نہیں ہوتی جتنی جوان لڑکیوں کے لیے۔ آج کا اہم مسئلہ آلودگی اور ذہنی تنائو انہیں بالوں سے محروم کر دیتا ہے۔ایک انسان کے سر پر عموماً ایک لاکھ بیس ہزار بال ہوتے ہیں اور تقریباً پچا س سے سو بال روزانہ جھڑ جاتے ہیں۔کیا آپ جانتی ہیں کہ ہر سن کے بعد عورتوں کے بال گرنے کی شرح میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے اور ایک خاص عمر کے بعد بال کچھ اس طرح گرنا شروع ہو جاتے ہیں کہ گھنا پن یکدم ختم ہو جاتا ہے۔ عورتوں میں بال گرنے کے تین اسبا ب ہیں عمر رسیدگی،جینز اور ہارمونز۔

بڑھاپے میں چونکہ سارے جسم کا نظام سست پڑ جاتا ہے لہٰذا بالوں کی نشوؤنما بھی اس کی زد میں آ جاتی ہے۔جبکہ وراثتی طور پر بال ان تمام عوامل سے اثر پذیر ہو سکتے ہیں جو آپ کے والدین میں پائے جاتے ہیں،مثلاًاگر آپ کے والدین کے بال جلد سفید ہو گئے یا گر گئے تو یقینا آپ اس وراثت خصوصیت سے خود کو الگ نہیں کر سکتیں۔ جہاں تک ہارمونز کا تعلق ہے تو ہر عورت کے جسم میں موجود ہارمونز دیگر عناصر کے ساتھ مل کرFolliclesکو سکیڑ کر بالوں کی نشوؤ نما کے قدرتی دائرے کو مختصر کر دیتے ہیں،گو یہ نارمل بات ہے اور ضروری بھی ہے مگر testosteroneنامی یہ ہارمون حیاتیاتی اعتبار سے غیر متحرک ہوتے ہیں۔اینڈروجن مردانہ ہارمونز کا شکار ہوتی ہے تو اس کے بال بہت زیادہ تعداد میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔اینڈروجن کی زیادتی نہ صرف عورتوں کے بالوں کو تباہ کر دیتی ہے بلکہ وہ دیگر جلدی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو جاتی ہیں۔

جگر اور تھائی رائیڈ کی خرابی بھی بالوں کی بیماری کے اہم اسباب میں شامل ہے۔اس کے علاوہ مختلف ادویات جو آرتھرائٹس اور ہائپر ٹینشن والی ادویات بھی آپ کے بالوں پر مضر اثرات کا سبب بن سکتی ہے۔اگر ادویات کا استعمال چھوڑ دیا جائے تو بالوں کی نشوؤ نما نارمل حالت میں آ سکتی ہے۔ 

بالوں کی ایک بیماری ایسی بھی ہے جس میں خون کے خلیے،بالوں کے خلیوں کو نشانہ بنا کر کچھ اس طرح تباہ کر دیتے ہیں کہ بال گرنا شروع ہو جاتے ہیں،اور جہاں جہاں سے گرتے ہیں وہاں گول دائرے بن جاتے ہیں۔یہ بیماریAlopecia Areateکہلاتی ہے اور اس کے نتیجے میں انسان گنجے پن کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔یوں تو اس بیماری کی اصل وجوہات سامنے نہیں آئیں لیکن سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلسل ذہنی تنائو اور دبائو کی کیفیت اس بیماری کو جنم دیتی ہے۔

اس کے علاوہ نوکری کرنے والی خواتین بھی بالوں کے پتلے ہو جانے کی کی شکایت کرتی ہیں۔ اس کا اہم سبب ذہنی تنائو ہے کیونکہ دفتری ماحول، زیادہ کام کا بوجھ،مقابلہ آ رائی کا رجحان اس قدر دبائو ڈالتا ہے کہ وہ اپنی خوبصوتی سے محروم ہونے لگتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

جلد کوتروتازہ رکھئے

قانون قدرت ہے کہ ہر جاندار بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے کی جانب بتدریج گامزن رہتا ہے۔ جلد بھی بالکل انہی مراحل سے گزرتی ہے۔ یہ جسم کے دوسرے حصوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی متاثر ہوتی ہے۔

کن اوقات میں وزن چیک نہیں کرنا چاہئے

بڑھتا ہوا وزن ہر کسی کیلئے پریشانی کا باعث ہوتاہے۔آج کی مصروف اور ہنگامہ خیز زندگی میں کھانے پینے اور رہنے سہنے کے خراب معمولات کی وجہ سے خواتین میںموٹاپا ایک عام مسئلہ بننے لگا ہے۔ہم سب کسی نہ کسی وقت اپنا وزن کم کرنے کیلئے سخت محنت کرتے ہیں لیکن جب وزن چیک کرنے کا وقت آتا ہے تو ہمیں بعض اوقات مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔کیا آپ جانتی ہیں کہ جس وقت ہم اپنا وزن چیک کرتے ہیں تو اس سے ہمارے وزن پر فرق پڑتا ہے؟ اور اگر ایسے وقت پر وزن کریں گے جو موزوں نہ ہوں تو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

آج کا پکوان: قیمہ کڑاہی

اجزاء:ہاتھ سے کٹا ہوا گائے کا قیمہ آدھا کلو، پسا ہوا لہسن ادرک ایک کھانے کا چمچ، کٹی ہوئی پیازایک عدد، کٹے ہوئے ٹماٹر چار عدد، پسی ہوئی لال مرچ ایک کھانے کا چمچ، بھنا اور کٹا ہوا سفید زیرہ دو چائے کے چمچ، کٹا ہوا دھنیا دو چائے کے چمچ، کٹی ہوئی ہری مرچیں دو کھانے کے چمچ، کٹا ہوا ہرا دھنیا دو کھانے کے چمچ، کٹی ہوئی ہری پیاز دو کھانے کے چمچ، پودینہ چند پتے، پسا ہو ا گرم مصالحہ چوتھائی چائے کا چمچ، پانی ایک پیالی، نمک ایک چائے کا چمچ، تیل آدھی پیالی، کٹا ہوا ہرا دھنیا اور ادرک سجانے کیلئے۔

ایم ڈی تاثیر ہر ادبی صنف میں کامیاب

تعارف: 28 فروری 1902ء کو امرتسر (ہندوستان ) میں پیدا ہوئے۔ایم اے 1926ء میں ایف سی کالج سے کیا۔ اسی سال اسلامیہ کالج میں انگریزی کے لیکچرر مقرر ہوئے اور کچھ عرصہ بعد مستعفی ہو کر محکمہ اطلاعات سے وابستہ ہو گئے۔ محمد دین تاثیر حضرت علامہ اقبالؒ کے دوست تھے۔ تاثیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انگریزی ادب میں انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کرنے والے وہ برصغیر کے پہلے آدمی تھے۔ 1935ء کے آخر میںمحمد دین تاثیر ایم اے او کالج امرتسر کے پرنسپل اور 1941ء میں سری نگر کے پرتاپ کالج کے پرنسپل مقررہوئے۔

سوء ادب : ہمارے جانور بھینس

شفیق الرحمان لکھتے ہیں کہ بھینس کو دُور سے آتے دیکھیں تو یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ آرہی ہے یا جا رہی ہے، حالانکہ دُو ر سے تو یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ جو آرہی ہے ،بھینس ہے یا کوئی اور چیز۔

سہ ماہی سائبان

یہ کتابی سلسلہ جس کا یہ سال نامہ ہے جید شاعر اور ادیب حُسین مجروع جس کے مُدیر اعلیٰ ہیں لاہور سے شائع ہوتا ہے۔ یہ یقینی طور پر ادب اور جمالیات کا آئینہ ہے اور جس میں ادبی مضامین نظم و نثر کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کے حوالے سے بھی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔