جلد کوتروتازہ رکھئے

تحریر : مہوش اکرم


قانون قدرت ہے کہ ہر جاندار بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے کی جانب بتدریج گامزن رہتا ہے۔ جلد بھی بالکل انہی مراحل سے گزرتی ہے۔ یہ جسم کے دوسرے حصوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی متاثر ہوتی ہے۔

شروع شروع میں انسانی جلد لچکدارہونے کے سبب ہر قسم کے ماحول کو برداشت کر سکتی ہے۔ جسم میں ہارمونز کی زیادہ کارکردگی کے سبب غدودوں سے پہلے کی نسبت کافی زیادہ چکناہٹ خارج ہونا شروع ہو جاتی ہے جس کے سبب جلد کے مسام کی ہیئت پھیلنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہی چکنائی مساموں میں جمنا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسا ہونے پربلیک ہیڈز، داغ دھبے، کیل مہاسے اور جھائیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو کہ جوانی میں ہر فرد کو پیداہو جاتے ہیں۔نوجوانی میں داخل ہونے والی بچیوں کو اپنی کلینزنگ پر عمل درآمد سیکھنا چاہیے کیونکہ اس طرح ان کے مساموں میں بلیک ہیڈز وغیرہ نہیں بنتے۔ کیل اور مہاسوں کی صورت میں کسی اچھی بیوٹیشن سے جراثیم کش صابن تجویز کرائیں تاکہ اس مسئلہ کو ابتدائی طور پر ہی درست کر لیا جا سکے۔

نوجوان لڑکیوں یعنی 20 سال کی عمر پوری ہوتے ہی ان کے غدودوں کی کارکردگی سست رو ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس بنا پر جلد انتہائی شفاف اور خوبصورت ہونے کے علاوہ جواں بھی ہو جاتی ہے۔ اگر اس مرحلہ پر جلد کی صفائی میں تساہلی برتی جائے تو کیل مہاسوں سے چھٹکارے کا دورانیہ طویل تر ہوتا جاتا ہے اور بلیک ہیڈز بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ اسی بنا پر سمجھ دار خواتین حسب ضرورت روزانہ اپنی جلد کی صفائی کو خصوصی اہمیت دیتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ان کی آج کی یہ صفائی مستقبل کے متوقع بڑھاپے کو کئی برس پیچھے دھکیل دے گا۔ 

خواتین کو چاہیے کہ میک اپ کیلئے کاسمیٹک کا استعمال زیادہ نہ بڑھائیں۔ کوشش کریں کہ ہلکا میک اپ کریں کیونکہ کاسمیٹکس کے زیادہ استعمال سے اس میں شامل کیمیکلز جلد کو نہ صرف زیادہ حساس بنا دیتے ہیں بلکہ موائسچر کی بتدریج اور طویل عرصہ تک کمی کے باعث نمایاں حصوں پر جھریاں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں۔ 

آپ پر لازم ہے کہ جلد کو بھی قدرتی ماحول میں رہنے کے لیے چند گھنٹے دیجیے۔ رات کو بستر پر جانے سے پیشتر دانتوں کی صفائی کے ساتھ ہی اپنے چہرے، بازوئوں اور پیروں وغیرہ کو لازمی طور پر دھوئیں۔ جلد پر کیے ہوئے میک اپ کو مکمل طور پر صاف کر دیجیے۔ آپ جب ایسی عادت اپنا لیں گی تو جلد کی تروتازگی آپ کی پرسکون نیند میں انتہائی معاون ثابت ہو گی۔ 24یا 25 سال کی عمر کے بعد مساج کو خصوصی اہمیت دیجیے کیونکہ مساج جلد کی نرمی اور شگفتگی کے لیے ایک انمول ٹانک کا کام کرتا ہے۔ مساج کی بنا پر جلد میں قوت مدافعت کی صلاحیت بدرجہ اتم پیدا ہو جاتی ہے۔

ہمارے مشرقی معاشرے میں خواتین کی ایک وسیع تعداد کی شادیاں 20 اور 30 سال کی عمر کے دوران کی جاتی ہیں۔ اس لیے حمل کے دوران ہارمونز اور رحم کی بے قاعدگیوں کے سبب جلد کوکئی مسائل درپیش ہو جاتے ہیں۔ اس بنا پر جلد کی نمی میں کافی کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسی خواتین کو چاہیے کہ وہ روزانہ موئسچرائیزنگ کو اپنا معمول بنا لیں۔

 اکثر خواتین40 سال کی عمر کے بعد اپنی جلد کو ثانوی حیثیت دے دیتی ہیں جس کی بنا پر ان کے جسم پر جھریاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ دیگر مسائل کا شکار ہونے سے پیشتر کسی ماہر امراض جلد یا اچھی بیوٹی اسپیشلسٹ سے اپنا معائنہ کرا کر علاج کرائیں۔

 50 سال کی عمر میں اکثر خواتین ذہنی دبائو کا شکار ہو جاتی ہیں۔ متوازن غذا، ہلکی ورزش اور نسبتاً میانہ میک اپ کر کے ایسی خواتین نہ صرف ایسے دبائو سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہیں بلکہ وہ دیگر مسائل سے بھی دور رہ سکتی ہیں۔اس عمر میں جوانی کی سی لچک اور خوشنما جلد خواب سا بن جاتا ہے کیونکہ دوران خون کی سست روی جلد کی رنگت اور اس کی توانائی کو بہت زیادہ متاثر کرنا شروع کر دیتی ہے۔ متوازن غذا اور باقاعدہ مساج تھوڑی بہت بہتری تو پید اکر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود جلد کی بعض حصوں کا اصل رنگ تبدیل ہو جانا، دھبے اور نشانات پڑنا شروع ہو جاتے ہیں جن کی بنا پر جلد رفتہ رفتہ موٹی اور کھردری ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس عمر میں ہلکا پھلکا موئسچرائزر کا استعمال کر کے جلد کی جسامت کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

کن اوقات میں وزن چیک نہیں کرنا چاہئے

بڑھتا ہوا وزن ہر کسی کیلئے پریشانی کا باعث ہوتاہے۔آج کی مصروف اور ہنگامہ خیز زندگی میں کھانے پینے اور رہنے سہنے کے خراب معمولات کی وجہ سے خواتین میںموٹاپا ایک عام مسئلہ بننے لگا ہے۔ہم سب کسی نہ کسی وقت اپنا وزن کم کرنے کیلئے سخت محنت کرتے ہیں لیکن جب وزن چیک کرنے کا وقت آتا ہے تو ہمیں بعض اوقات مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔کیا آپ جانتی ہیں کہ جس وقت ہم اپنا وزن چیک کرتے ہیں تو اس سے ہمارے وزن پر فرق پڑتا ہے؟ اور اگر ایسے وقت پر وزن کریں گے جو موزوں نہ ہوں تو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بال کیوں گرتے ہیں؟

یوں تو بال ہر انسان کے لیے اس کے جسم کا انتہائی اہم حصہ ہیں،مگر خواتین کی نسوانیت صرف بالوں سے ہی قائم ہوتی ہے۔خواتین کے لیے بالوں میں کمی اتنی حیران کن نہیں ہوتی جتنی جوان لڑکیوں کے لیے۔ آج کا اہم مسئلہ آلودگی اور ذہنی تنائو انہیں بالوں سے محروم کر دیتا ہے۔ایک انسان کے سر پر عموماً ایک لاکھ بیس ہزار بال ہوتے ہیں اور تقریباً پچا س سے سو بال روزانہ جھڑ جاتے ہیں۔کیا آپ جانتی ہیں کہ ہر سن کے بعد عورتوں کے بال گرنے کی شرح میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے اور ایک خاص عمر کے بعد بال کچھ اس طرح گرنا شروع ہو جاتے ہیں کہ گھنا پن یکدم ختم ہو جاتا ہے۔ عورتوں میں بال گرنے کے تین اسبا ب ہیں عمر رسیدگی،جینز اور ہارمونز۔

آج کا پکوان: قیمہ کڑاہی

اجزاء:ہاتھ سے کٹا ہوا گائے کا قیمہ آدھا کلو، پسا ہوا لہسن ادرک ایک کھانے کا چمچ، کٹی ہوئی پیازایک عدد، کٹے ہوئے ٹماٹر چار عدد، پسی ہوئی لال مرچ ایک کھانے کا چمچ، بھنا اور کٹا ہوا سفید زیرہ دو چائے کے چمچ، کٹا ہوا دھنیا دو چائے کے چمچ، کٹی ہوئی ہری مرچیں دو کھانے کے چمچ، کٹا ہوا ہرا دھنیا دو کھانے کے چمچ، کٹی ہوئی ہری پیاز دو کھانے کے چمچ، پودینہ چند پتے، پسا ہو ا گرم مصالحہ چوتھائی چائے کا چمچ، پانی ایک پیالی، نمک ایک چائے کا چمچ، تیل آدھی پیالی، کٹا ہوا ہرا دھنیا اور ادرک سجانے کیلئے۔

ایم ڈی تاثیر ہر ادبی صنف میں کامیاب

تعارف: 28 فروری 1902ء کو امرتسر (ہندوستان ) میں پیدا ہوئے۔ایم اے 1926ء میں ایف سی کالج سے کیا۔ اسی سال اسلامیہ کالج میں انگریزی کے لیکچرر مقرر ہوئے اور کچھ عرصہ بعد مستعفی ہو کر محکمہ اطلاعات سے وابستہ ہو گئے۔ محمد دین تاثیر حضرت علامہ اقبالؒ کے دوست تھے۔ تاثیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انگریزی ادب میں انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کرنے والے وہ برصغیر کے پہلے آدمی تھے۔ 1935ء کے آخر میںمحمد دین تاثیر ایم اے او کالج امرتسر کے پرنسپل اور 1941ء میں سری نگر کے پرتاپ کالج کے پرنسپل مقررہوئے۔

سوء ادب : ہمارے جانور بھینس

شفیق الرحمان لکھتے ہیں کہ بھینس کو دُور سے آتے دیکھیں تو یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ آرہی ہے یا جا رہی ہے، حالانکہ دُو ر سے تو یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ جو آرہی ہے ،بھینس ہے یا کوئی اور چیز۔

سہ ماہی سائبان

یہ کتابی سلسلہ جس کا یہ سال نامہ ہے جید شاعر اور ادیب حُسین مجروع جس کے مُدیر اعلیٰ ہیں لاہور سے شائع ہوتا ہے۔ یہ یقینی طور پر ادب اور جمالیات کا آئینہ ہے اور جس میں ادبی مضامین نظم و نثر کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کے حوالے سے بھی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔