مسواک : نبی کریمﷺ کی سنت
مسواک پیارے نبی ﷺ کی ایک ایسی سنت ہے جو آپ ﷺ نے آخری وقت بھی نہ چھوڑی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ آپ ﷺ کو مسواک چبا کر دیا کرتی تھیں اور آپ ﷺ اسے استعمال کیا کرتے تھے۔ مسواک کرنا متفقہ طور پر تمام علما کرام کے نزدیک سنت ہے مگر حنفیہ کے نزدیک خاص طور پر وضو و نماز کے وقت مسواک کرنا مسنون ہے، نیز نماز فجر اور نماز ظہر سے پہلے بھی مسواک کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ مسواک کرنے میں بڑی خیر و برکت اور بہت فضیلت ہے۔ ناصرف مسواک کرنا ثواب کا باعث ہے بلکہ اس سے جسمانی طور پر بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا دس چیزیں سنت ہیں۔ مونچھیں کتروانا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخنوں کا کاٹنا، جوڑ دھونا، بغل کے بال اکھیڑنا، زیر ناف بال صاف کرنا، پانی سے استنجا کرنا مصعب راوی بیان کرتے ہیں کہ دسویں چیز میں بھول گیا شاید وہ کلی کرنا ہو (صحیح مسلم:جلد اوّل،وضو کا بیان) ۔حضرت عائشہ صدیقہؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’وہ نماز جس کیلئے مسواک کی گئی اس نماز پر جس کیلئے مسواک نہیں کی گئی ستر درجے کی فضیلت رکھتی ہے‘‘ (احمد، بیہقی)
قیلولہ اور مسواک
حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ رات کو (سوکر تہجد کیلئے) اٹھتے تو (سب سے پہلے) اپنے منہ کو مسواک سے صاف کرتے‘‘(صحیح بخاری:جلد اوّل، مسواک کرنے کا بیان)۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ سرکار دوعالمﷺ جب رات اور دن میں سو کر اٹھتے تو وضو کر نے سے پہلے مسواک کرتے‘‘ (مسند احمد بن حنبل،ابو دائود)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ دن میں بھی قیلولہ کے وقت آرام فرماتے تھے۔ دن میں تھوڑا بہت سو لینا سنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے رات میں اللہ کی عبادت کیلئے اٹھنا آسان ہو جاتا ہے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سو کر اٹھنے کے بعد مسواک کرنا سنت مؤکدہ ہے کیونکہ سونے کی وجہ سے منہ میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور مسواک کرنے سے منہ صاف ہو جاتا ہے۔
امت کیلئے شاق
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر میں اپنی امت کیلئے شاق نہ جانتا، تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا‘‘(صحیح بخاری) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان سنا ہے کہ ’’میں سونے سے پہلے بھی مسواک کرتا ہوں، سو کر اٹھنے کے بعد بھی، کھانے سے پہلے بھی اور کھانے کے بعد بھی مسواک کرتا ہوں‘‘(مسند احمد)۔ احادیث بالا مسواک کے فضائل میں ذکر کی گئی ہیں۔ اب مسواک کے احکامات و طریقہ پہ نظر ڈالتے ہیں۔
مسواک کیسی ہو!
وضو کرتے وقت مسواک کرنا سنتِ مؤکدہ ہے اور مسواک بانس، انار اور ریحان کے علاوہ کسی اور درخت کی ہونی چاہئے۔ خصوصا کڑوے درخت کی، زیادہ اولیٰ پیلو کے درخت کی ہے، پھر زیتون کے درخت کی ہے۔ الغرض مسواک درخت کی ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی وقت کسی درخت کی مسواک میسر نہ ہو تو انگلی سے دانت صاف کرکے منہ کی بدبو زائل کر دے، اس طرح بھی سنت ادا ہوجاتی ہے۔ بہرحال اصل سنت درخت کی مسواک ہے۔
مسواک کرنے کا طریقہ
مسواک کا طریقہ یہ ہے کہ دانت کے اوپری حصہ پربھی کیا جائے اور نچلے حصہ پر بھی اور داڑھوں پربھی، دائیں جانب سے مسواک کی ابتدا کرے، کم سے کم تین بار اوپر تین بار نیچے پانی کے ساتھ مسواک پھیرنی چاہیے۔ مسواک چوڑائی میں یعنی دائیں حصہ سے بائیں حصہ کی طرف کرنی چاہیے۔ مستحب ہے کہ مسواک کو دائیں ہاتھ سے پکڑا جائے ۔
مسواک کے فوائد
ملاعلی قاری ؒفرماتے ہیں کہ ’’مسواک میں ستر فوائد ہیں، ان میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی برکت سے موت کے وقت کلمہ یاد آجاتا ہے، اس کے برعکس افیون میں ستر نقصانات ہیں، ان میں سے کم تر نقصان یہ ہے کہ موت کے وقت کلمہ یاد نہیں آتا‘‘ (مرقاۃ المفاتیح)
رب کی خوشنودی کا ذریعہ ہے، فرشتے اس سے خوش ہوتے ہیں،اتباع نبی ﷺ ہے، نماز کے ثواب کو بڑھاتی ہے، شیطانی وسوسے دور ہو جاتے ہیں، اس کی برکت سے قبر وسیع ہو جاتی ہے، جسم سے روح سہولت سے نکلتی ہے، قلب کی پاکیزگی ہوتی ہے، مسواک کرنے والے کیلئے انبیا علیہم السلام بھی استغفار کرتے ہیں، مسواک کے ساتھ وضو کرکے نماز کو جائیں فرشتے پیچھے چلتے ہیں،شیطان اس کی وجہ سے دور اور ناخوش ہوتا ہے۔ مسواک کا اہتمام کرنے والا پل صراط سے بجلی کی طرح گزرے گا۔ نزع میں جلدی ہوتی ہے۔ جنت کے دروازے اس کیلئے کھل جاتے ہیں۔دوزخ کے دروازے اس پر بند کر دیے جاتے ہیں۔
اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو دیگر سنتوں کے ساتھ مسواک کی سنت کو بھی زندہ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے (آمین)۔