سوء ادب : ہمارے جانور بھینس
شفیق الرحمان لکھتے ہیں کہ بھینس کو دُور سے آتے دیکھیں تو یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ آرہی ہے یا جا رہی ہے، حالانکہ دُو ر سے تو یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ جو آرہی ہے ،بھینس ہے یا کوئی اور چیز۔
بھینس رکھنا چاہیں تو اسے خریدنے کی ضرورت نہیں ،آپ کے پاس تگڑی سی ایک لاٹھی ہونی چاہیے ، اِس کے بعد جس بھینس پر بھی ہاتھ رکھیں گے وہ آپ کی ہو گی۔ البتہ آپ کو اُس کیلئے ایک عدد بین ضرورخریدنا پڑے گی کیونکہ جب تک اُس کے آگے بین نہیں بجائی جائے گی وہ دودھ نہیں دے گی۔
ہمارے مرحوم دوست میاں محمد یٰسین خان وٹو کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا تو اُنہیں یہ کہتے سُنا گیا کہ بیوی یا بھینس مر جائے تو لوگ رونے نہیں دیتے حالانکہ رونے کا حق بنتا ہے ،غا لبناً اِس لیے کہ دونوں کو آپ کے بچوں کو دود ھ پلانے کا شر ف حاصل ہوتا ہے۔
بھینس کالے او ر بھُورے دو رنگوں میں ہوتی ہے لیکن اِس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دونوں صورتوں میں وہ بھینسیں ہی رہتی ہیں۔ ایک بھارتی فلمی گانا تھا ’’مری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا ‘‘اگرچہ یہ اِس طر ح بھی ہو سکتا تھا ’’مرے باپ کو ڈنڈا کیوں مارا‘‘ لیکن بھینس کو ترجیح اِس لیے دی گئی ہے کہ وہ دودھ دیتی ہے باپ دودھ نہیں دیتا ۔
اب آخر میں خاک سار کے تیسرے مجموعۂ کلام ’’رطب و یابس ‘‘میں سے بھینس پر لکھی گئی یہ غزل :
دودھ دے گی نہیں ہمیشہ بھینس
ساتھ اپنے ردیف رکھنا بھینس
لیا آتے ہی اُس نے سینگوں پر
اب کہو عقل ہے بڑی یا بھینس
میم صاحب نے بھی دیا فتویٰ
جس کا لاٹھی اِدھر اُسی کا بھینس
لڑتے رہتے ہیں کٹڑیاں کٹڑے
دیکھتی رہتی ہے تماشا بھینس
سوئی رہتی ہے دل کے سایوں میں
ہے ترے وصل کی تمنا بھینس
پالتو ہیں کہ فالتو، مت پوچھ
میں، کبوتر، چکور، کُتا، بھینس
آپ ہلتی نہیں ہو بستر سے
اور کہتی ہو مجھ کو اُلٹا بھینس
صرف اُدھڑی ہوئی زمیں تھی وہاں
غیر حاضر تھے دونوں بھینسا ،بھینس
بین جب سے بجا رہا ہوں ،ظفر
میرے چاروں طرف ہے کیا کیا بھینس