سوء ادب : ہمارے جانور بھینس

تحریر : ظفر اقبال


شفیق الرحمان لکھتے ہیں کہ بھینس کو دُور سے آتے دیکھیں تو یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ آرہی ہے یا جا رہی ہے، حالانکہ دُو ر سے تو یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ جو آرہی ہے ،بھینس ہے یا کوئی اور چیز۔

 بھینس رکھنا چاہیں تو اسے خریدنے کی ضرورت نہیں ،آپ کے پاس تگڑی سی ایک لاٹھی ہونی چاہیے ، اِس کے بعد جس بھینس پر بھی ہاتھ رکھیں گے وہ آپ کی ہو گی۔ البتہ آپ کو اُس کیلئے ایک عدد بین ضرورخریدنا پڑے گی کیونکہ جب تک اُس کے آگے بین نہیں بجائی جائے گی وہ دودھ نہیں دے گی۔

 ہمارے مرحوم دوست میاں محمد یٰسین خان وٹو کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا تو اُنہیں یہ کہتے سُنا گیا کہ بیوی یا بھینس مر جائے تو لوگ رونے نہیں دیتے حالانکہ رونے کا حق بنتا ہے ،غا لبناً اِس لیے کہ دونوں کو آپ کے بچوں کو دود ھ پلانے کا شر ف حاصل ہوتا ہے۔

بھینس کالے او ر بھُورے دو رنگوں میں ہوتی ہے لیکن اِس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دونوں صورتوں میں وہ بھینسیں ہی رہتی ہیں۔ ایک بھارتی فلمی گانا تھا ’’مری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا ‘‘اگرچہ یہ اِس طر ح بھی ہو سکتا تھا ’’مرے باپ کو ڈنڈا کیوں مارا‘‘ لیکن بھینس کو ترجیح اِس لیے دی گئی ہے کہ وہ دودھ دیتی ہے باپ دودھ نہیں دیتا ۔

اب آخر میں خاک سار کے تیسرے مجموعۂ کلام ’’رطب و یابس ‘‘میں سے بھینس پر لکھی گئی یہ غزل :

دودھ دے گی نہیں ہمیشہ بھینس 

ساتھ اپنے ردیف رکھنا بھینس 

لیا آتے ہی اُس نے سینگوں پر 

اب کہو عقل ہے بڑی یا بھینس 

میم صاحب نے بھی دیا فتویٰ

جس کا لاٹھی اِدھر اُسی کا بھینس 

لڑتے رہتے ہیں کٹڑیاں کٹڑے 

دیکھتی رہتی ہے تماشا بھینس 

سوئی رہتی ہے دل کے سایوں میں 

ہے ترے وصل کی تمنا بھینس 

پالتو ہیں کہ فالتو، مت پوچھ 

میں، کبوتر، چکور، کُتا، بھینس 

آپ ہلتی نہیں ہو بستر سے 

اور کہتی ہو مجھ کو اُلٹا بھینس 

صرف اُدھڑی ہوئی زمیں تھی وہاں 

غیر حاضر تھے دونوں بھینسا ،بھینس 

بین جب سے بجا رہا ہوں ،ظفر 

میرے چاروں طرف ہے کیا کیا بھینس 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ایم ڈی تاثیر ہر ادبی صنف میں کامیاب

تعارف: 28 فروری 1902ء کو امرتسر (ہندوستان ) میں پیدا ہوئے۔ایم اے 1926ء میں ایف سی کالج سے کیا۔ اسی سال اسلامیہ کالج میں انگریزی کے لیکچرر مقرر ہوئے اور کچھ عرصہ بعد مستعفی ہو کر محکمہ اطلاعات سے وابستہ ہو گئے۔ محمد دین تاثیر حضرت علامہ اقبالؒ کے دوست تھے۔ تاثیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انگریزی ادب میں انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کرنے والے وہ برصغیر کے پہلے آدمی تھے۔ 1935ء کے آخر میںمحمد دین تاثیر ایم اے او کالج امرتسر کے پرنسپل اور 1941ء میں سری نگر کے پرتاپ کالج کے پرنسپل مقررہوئے۔

سہ ماہی سائبان

یہ کتابی سلسلہ جس کا یہ سال نامہ ہے جید شاعر اور ادیب حُسین مجروع جس کے مُدیر اعلیٰ ہیں لاہور سے شائع ہوتا ہے۔ یہ یقینی طور پر ادب اور جمالیات کا آئینہ ہے اور جس میں ادبی مضامین نظم و نثر کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کے حوالے سے بھی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔

دورہ زمبابوے،شاہینوں کانیا امتحان

دورہ آسٹریلیا مکمل کرنے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم اپنے غیرملکی دورے کے دوسرے حصے کیلئے زمبابوے پہنچ چکی ہے، جہاں دو روز پریکٹس کرنے کے بعد وہ پہلے ایک روزہ میچ کیلئے آج میدان مین اترے گی۔

اچھے بچے نہیں لڑتے

راجو اور شانی ہمیشہ کسی نہ کسی بات پر جھگڑا کرتے نظر آتے تھے۔ ان دونوں کے گھر والے ان سے بہت تنگ تھے۔ دونوں ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے لڑتے اور بدلا لیتے نظر آتے تھے۔

چاند پری

چاند پری ایک خوبصورت اور پراسرار مخلوق تھی جو چاند پر رہتی تھی۔ اس کی سفید ریشمی بال، چمکدار آنکھیں اور روشنیوں سے سجا ہوا لباس اسے واقعی جادوئی دنیا کی شہزادی بناتا تھا۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

مکڑیاں جالے کیسے بنتی ہیں؟ مکڑی کے جالے میں کچھ تار چپکنے والے اور کچھ نہ چپکنے والے ہوتے ہیں۔ مکڑی سب سے پہلے جالے کا ڈھانچہ نہ چپکنے والے تاروں سے تیار کر تی ہے جو ’’پاگاہ‘‘ (Foothold)کا کام کرتے ہیں۔اس کے بعد وہ باقی جال کو ایسے تاروں سے مکمل کرتی ہے جو انتہائی چپکنے والے ہوتے ہیں۔